Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اس کنفیوژن سے نکلا کیسے جائے

عمران خان ماضی میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سخت بیانات دے چکے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
گذشتہ ہفتے کے واقعات دیکھ کر ایک پرانی ایڈونچر فلم کا سین یاد آگیا۔ فلم کا ایک کردار بھٹک کر ایک سنسان جزیرے میں کھو چکا ہے۔ جب وہ کردار سمت کا تعین کرنے کے لیے جیب سے قطب نما (جسے انگریزی میں کمپس کہا جاتا ہے)  نکال کر کھولتا ہے تو اس کی سوئیاں گھومتی ہی رہ جاتی ہیں اور پتا نہیں چل پاتا کہ مشرق کہاں ہے اور مغرب  کس طرف۔
اسی جھنجھلاہٹ میں اس کردار کے منہ سے بے اختیار نکلتا ہے کہ 
“We are in the middle of nowhere”
سابق آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کے فیصلے کے بعد لگتا ہے کہ بطور قوم ہماری اجتماعی حالت اس قطب نما کی مانند ہے  جسے کوئی راہ نہیں سوجھ رہی۔
اور  سوجھے بھی کیسے  کیونکہ پاکستان کی تاریخ کے انتہائی اہم اور انوکھی نوعیت کے اس فیصلے کے لیے کوئی ذہنی طور پر تیار نہیں تھا، نہ اسٹیبلشمنٹ، نہ سیاسی جماعتیں اور نہ ہی میڈیا۔ اسی لیے ہر سُو کنفیوژن ہی کنفیوژن برپا ہے۔ 
فیصلے کے فوراً بعد تحریک انصاف کے رد عمل کی سمجھ نہیں آسکی کہ آخر حکومت کی حکمت عملی کون ترتیب دے رہا ہے۔  
بطور اپوزیشن لیڈر خان صاحب کے درجنوں بیانات ریکارڈ پر ہیں جہاں وہ اس بات کے قائل ہیں کہ جنرل مشرف سنگین غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس کیس میں وزیراعظم پاکستان، سیکرٹری داخلہ کے ذریعے فریق ہیں اور بطور وزیراعظم، خان صاحب ریاست کی جانب سے دائر یہ کیس جیت چکے ہیں۔ 
لیکن فیصلہ آتے ہی اٹارنی جنرل صاحب ٹیلی وژن سکرینز پر نمودار ہو کر اس فیصلے پر کھلے عام تنقید کرتے نظر آئے۔ جب تحریک انصاف والوں سے پوچھا گیا کہ کیا ایسا وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر کیا جا رہا ہے تو انہوں نے اس معاملے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ کابینہ اجلاس میں بھی خیر اندیشوں نے حکومت کو اس معاملے سے الگ تھلگ رہنے کا مشورہ دیا۔ لیکن بہرحال حکومتی مشیران نے اس معاملے پر پریس کانفرنس کر کے نہ صرف خود کو فریق بنا لیا بلکہ جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا اعلان بھی کر دیا۔ 

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف لندن میں ہیں اور انہوں نے مشرف کی سزا پر ردعمل جاری نہیں کیا۔ فوٹو: اے ایف پی

گمان ہوتا ہے کہ مشرف فیصلے کے معاملے پر، خان صاحب کی حکومت کا دل ایک طرف اور دماغ دوسری طرف ہے۔ اور وہی کنفیوژن جماعت کے ترجمانوں کی باتوں میں بھی جھلک رہی ہے کیونکہ تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن، خان صاحب کے بیانیے کے مطابق، جنرل مشرف کو مجرم سمجھتے ہیں جنہوں نے این آر او دے کر ’کرپٹ عناصر‘ کی واپسی کی راہ ہموار کی اور عمران خان کو دلبرداشتہ ہو کر 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنا پڑا۔ لیکن اب یہی نظریاتی کارکن اپنی حکومت کو مشرف کا دفاع کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ 
کنفیوژن صرف حکومت ہی نہیں بلکہ اپوزیشن کی صفوں میں بھی ہے۔ شریف خاندان کی خاموشی  تو خیر اب ہر گز پراسرار نہیں رہی، پرویز رشید نے آن ریکارڈ یہ کہہ کر کہ نون لیگ احتیاط کر رہی ہے کیونکہ اس کے ساتھ احتیاط ہو رہی ہے۔ گویا مُہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ شہباز شریف سے ویسے بھی ان کے اپنوں کو بھی کوئی خاص توقع نہیں تھی اور وہ بھی خیر سے ان کی امیدوں پر پورا اترے ہیں۔ فیصلے کے بارے میں جواب سے تو وہ کنی کترا گئے لیکن اگلے ہی دن یوم کسان پر بطور پارٹی صدر روایتی بیان جاری کرنا نہیں بھولے۔ 
نواز شریف صاحب بقول ان کے بیٹوں کے ووٹ کو عزت دینے کا معاملہ اللہ پر چھوڑے بیٹھے ہیں جبکہ مریم نواز ٹوئٹر پر کھانوں کی ترکیبیں جمع کر رہی ہیں۔  البتہ لگے ہاتھوں انہوں نے ملک سے باہر جانے کی درخواست دوبارہ عدالت میں دائر کر دی ہے۔ 

پرویز مشرف نے اپنے خلاف فیصلے پر ردعمل دبئی کے ہسپتال سے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے جاری کیا۔ فوٹو: ٹوئٹر 

 پیپلز پارٹی میں بلاول کی جانب سے نپا تلا محتاط رد عمل سامنے آیا ہے اور زرداری صاحب کی طرف سے رہائی کے بعد صرف گہری خاموشی ہے۔
مختصراً، آرمی چیف کی ایکسٹینشن اور مشرف کیس کے فیصلوں کے بعد سیاسی قیادت کے لیے جو گنجائش نکلی ہے، اس کے بارے میں کسی بھی سیاسی جماعت کا بظاہر کو ئی ٹھوس ویژن دکھائی نہیں دیتا۔ سب کی سیاست فی الوقت اپنے اپنے کیسز کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ 
ایسی ہی کنفیوژن، جنرل صاحب کے  ریٹائرڈ پیٹی بند بھائیوں کے موقف میں بھی ہے۔ وہ ایک ہی سانس میں جہاں آئین شکنی کیس کے فیصلے پر اعتراضات اٹھاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ موقف دہراتے ہیں کہ اصل معاملہ تو 12 اکتوبر کو منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کا ہے اور اس میں ملوث تمام لوگوں کو جنہوں نے انہیں قانونی چھتری فراہم کی سزا دی جانی چاہیے۔ 
یاد رہے کہ 1999 کی آئین شکنی پر بھی آرٹیکل چھ کا ہی اطلاق ہوتا ہے۔ اب ایک طرف اس بات پر اصرار کہ قانون سے بالا کوئی نہیں اور دوسری طرف اپنے سابق چیف کے ساتھ غدار کا لفظ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ عجیب مخمصہ ہے۔ 
ہم میڈیا والے اپنی جگہ علیحدہ کنفیوژڈ ہیں۔ ہمارے ہی کچھ ساتھیوں کی جنرل مشرف کے بارے میں پہلے اور آج کے خیالات میں جو واضح تضاد سامنے آیا ہے وہ قابل دید ہے۔ ان میں سے کھوسہ صاحب کے کچھ مداح جو ان کے بے باک ریمارکس اور آبزرویشنز کے شیدائی تھے، مشرف کیس اور ایکسٹینشن کے فیصلے کے بعد سے روٹھے روٹھے نظر آتے ہیں۔ صحافیوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو پانامہ فیصلہ پر ناراض اور حالیہ فیصلوں کے بعد جسٹس کھوسہ کے دور کو  سراہتے دکھائی دیتے ہیں۔ 

پرویز مشرف کے خلاف فیصلے پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹس کیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اس ساری کنفیوزن نے اگر عوام کو حیران اور پریشان کیا ہوا ہے تو اس پہ حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ سوال البتہ یہ ہے کہ اس کنفیوژن سے نکلا کیسے جائے۔ 
میری اطلاعات کے مطابق آگ پر پانی ڈالنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ متعلقہ جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا ارادہ ترک ہو جائے گا اور اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل دائر کر کے درمیانی راستہ ڈھونڈا جائےگا۔ 
ایسے وقت میں جہاں پڑوسی ملک اپنی ناکام اندرونی پالیسیوں کے پیش نظر اپنے  ملک میں لگی آگ سے توجہ ہٹانے کے لیے کوئی مہم جوئی کرنے کے موڈ میں ہے اور مختلف عالمی اور علاقائی طاقتوں کے مفادات کے بیچ ہمارا  کردار نازک سے نازک تر ہوتا چلا جا رہا ہے، ضروری ہے کہ  ہمارے ادارے جلد از جلد اس کنفیوزن سے جان چھڑا لیں۔
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں