کوئٹہ: دو کمسن بہنوں کی بوری بند لاشیں برآمد، ’سانس روک کر قتل کیا گیا‘
کوئٹہ: دو کمسن بہنوں کی بوری بند لاشیں برآمد، ’سانس روک کر قتل کیا گیا‘
جمعہ 1 اگست 2025 6:03
زین الدین احمد -کوئٹہ، اردو نیوز
پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض کے مطابق ’کسی چیز سے سانس روک کر بچیوں کو قتل کیا گیا‘ (فوٹو: اردو نیوز)
کوئٹہ میں دو کمسن بہنوں کی بوری بند لاشیں برآمد ہونے کے بعد کیس کی تفتیش سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ (ایس سی آئی ڈبلیو) کے سپرد کردی گئی ہے۔ واقعے کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا گیا ہے، تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول بچیوں کے والدین سمیت خاندان کے کئی افراد کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے۔
سریاب تھانے کے ڈیوٹی آفیسر فتح پرکانی نے بتایا کہ بچیوں کی لاشیں قمبرانی روڈ کلی بنگلزئی میں ایک زیرِتعمیر مکان سے ملی تھیں جن کی شناخت پانچ سال کی یسریٰ اور تین سال کی میرب کے نام سے ہوئی۔
یہ دونوں بہنیں بی بی رُخسانہ اور سُدھیر احمد کی بیٹیاں تھیں۔ دونوں بچیوں کی لاشیں پلاسٹک کی بوریوں میں بند تھیں۔ لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا۔
پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کسی چیز سے سانس روک کر بچیوں کو قتل کیا گیا۔ لاشیں دو سے تین دن پُرانی ہونے کے باعث خراب ہو چکی تھیں۔ فورینزک شواہد اور ڈی این اے کے نمونے حاصل کر کے لیبارٹری بھیج دیے گئے ہیں۔‘
کوئٹہ پولیس نے ایس ایچ او مجاہد عباس ملغانی کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ تھانہ سریاب میں درج کر لیا ہے۔
مقتول بچیوں کے نانا محمد عالم نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ ’میرب اور یسریٰ کے والدین میں دو سال قبل طلاق ہوگئی تھی جس کے بعد خاندان کے بڑوں کے فیصلے کے مطابق بچیاں والدہ کے پاس رہتی تھیں اور ہفتے میں ایک یا دو روز والد سے ملاقات کرتی تھیں۔
پولیس کے مطابق علیحدگی کے بعد بھی دونوں خاندانوں میں تنازع چلا آرہا تھا۔ پولیس کو دیے گئے بیانات میں فریقین نے متضاد موقف اپنایا ہے۔
والدہ کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ بچیوں کو سنیچر کے روز اُن کا چچا یہ کہہ کر لے گیا تھا کہ گھر میں شادی کی تقریب ہے، یہ دو تین دن نہیں آئیں گی۔
دوسری جانب والد کے ایک رشتہ دار کا کہنا ہے کہ بچیاں سنیچر کو والد کے پاس لائی گئیں اور اتوار کو واپس نانا کے حوالے کر دی گئی تھیں۔
ہسپتال ذرائع کے مطابق لاشیں ملنے کی اطلاع پر دونوں طرف کے رشتہ دار سول ہسپتال پہنچے جہاں اُن کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی اور ماحول کشیدہ ہو گیا۔ اس تنازعے کی وجہ سے لاشوں کی حوالگی بھی تاخیر کا شکار ہوئی، دونوں خاندان لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
لاشیں ملنے کی اطلاع پر بچیوں کے والد اور والدہ کے رشتہ دار ہسپتال پہنچے جہاں اُن میں تلخ کلامی ہوگئی (فوٹو: اردو نیوز)
پولیس نے لاشیں اپنی تحویل میں لے کر مُردہ خانے منتقل کردیں اور بعد ازاں بچیوں کے دادا کے حوالے کر دی گئیں۔
کیس کے تفتیشی افسر بشیر احمد کے مطابق ’خاندانی تنازعے سمیت واقعے کی تمام پہلوؤں سے تفتیش کی جا رہی ہے، تاہم اب تک کیس میں کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے نہیں آئی۔‘
دوسری جانب بلوچستان اسمبلی میں بھی جمعرات کو یہ معاملہ زیر بحث آیا۔ سریاب سے رُکن صوبائی اسمبلی پرنس آغا عمر احمد زئی نے مطالبہ کیا کہ کیس کی تفتیش کے لیے اعلٰی سطح کی کمیٹی بنائی جائے جس میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ اور آئی جی پولیس کو شامل کیا جائے۔
وزیر اعلٰی بلوچستان نے بچیوں کے قتل کا نوٹس لے لیا
وزیر اعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بھی بچیوں کے قتل کے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔
انہوں نے آئی جی پولیس بلوچستان کو ہدایت کی ہے کہ معصوم بچیوں کے قتل میں ملوث عناصر کی فوری گرفتاری یقینی بنائی جائے اور کوئی بھی مجرم قانون کی گرفت سے نہ بچنے پائے۔
سرفراز بگٹی نے واضح کیا کہ ایسے سفاک جرائم میں ملوث مجرم خواہ کتنے ہی بااثر یا صاحب حیثیت کیوں نہ ہوں، قانون اُن سے کسی قسم کی نرمی نہیں برتے گا اور اُنہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔