Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاست کا نوحہ

منتخب قیادت کا سیاست کو کاروبار کا ذریعہ بنانا سب سے بڑا اور تسلیم شدہ الزام ہے۔ فوٹو: روئٹرز
بھلا کوئی بھی ذی شعور شخص اس بات پر یقین کرے گا کہ ایسا ملک جہاں چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا ممکنہ آئینی بحران سر اٹھائے کھڑا ہو، تمام سٹیک ہولڈرز کی نگاہیں پارلیمان پر گڑی ہوں کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں توسیع کےمعاملے پر قانون سازی پر کوئی پیشرفت کی جائے، وہاں ایسے وقت میں پارلیمان کے 25 منٹ، جی ہاں 25 منٹ۔۔۔ پارلیمنٹ لاجز میں چوہوں، پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں کھانوں کے معیار اور قیمت پر بحث ہوتی رہی ہو۔
نہیں نا؟ آپ کی طرح شاید مجھے بھی یقین نہ آتا، اگر میرے پروگرام پروڈیوسر ابوزر اپنی گناہ گار آنکھوں سے یہ منظر دیکھ کر نہ آئے ہوتے۔ 
ایوان میں چوہوں سے بچاؤ کے معاملے کی بازگشت اس وقت سنائی دی جب پیپلزپارٹی کی شاہدہ رحمانی نے جھنجلاہٹ بھرے لہجے میں دہائی دی کہ پارلیمنٹ لاجز میں چوہوں نے ہمارا سکون حرام اور رہنا محال کر رکھا ہے۔
کچھ اراکین نے شکایت کی کہ چوہے تو پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں بھی دھمال چوکڑی مچائے پھرتے ہیں، زیادہ قیمت پر غیرمعیاری کھانا ملنے کا دکھ اس کے علاوہ ہے۔ بات چونکہ چل ہی نکلی تھی تو ہاتھوں ہاتھ یہ تجویز پیش کی گئی کہ یہ مسائل حل کرنے کے لیے پارلیمنٹ اور اس کے گرد و نواح میں سی ڈی اے کے عملے کا فوری تبادلہ کیا جائے۔  
چوہوں پر بحث اتنی گھمبیر ہو گئی کہ بلآخر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کو  تحریک انصاف کے فرخ حبیب کی سربراہی میں کمیٹی بنا کر معاملہ کو وقتی طور پر رفع دفع کرنا پڑا۔ 

کالم نگار کے مطابق منتخب نمائندے اپنی کھوئی ہوئی سپیس حاصل کرنے کے لیے کوئی عملی مظاہرہ کرتے نظر نہیں آتے (فوٹو: اے ایف پی)

اب میرا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ منتخب نمائندگان ہماری طرح گوشت پوست کے پتلے نہیں ہیں اورانہیں اپنی رہائش اور کھانے پینے کے مسائل کا ایوان میں ذکر نہیں کرنا چاہیے۔ بس یہ ’چوہوں سے بچاؤ کمیٹی‘ کی تشکیل شاید میری طرح  دوسروں کو بھی دلچسپ لگے اسی لیے یہاں ذکر کر دیا۔ 
اجلاس کے دونوں دن کورم تو نامکمل رہا لیکن پارلیمنٹ میں تمام اراکین کی حاضری سو فیصد لگی، اس بات کی اسمبلی کی ویب سائٹ سے تصدیق کی جا سکتی ہے۔ حاضری لگی ہو تو ظاہر ہے ٹی اے ڈی اے کی وصولی بھی ہو ہی جاتی ہے۔ 
سونے پر سہاگہ اگلے روز، الیکشن کمیشن تقرری کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مسلم لیگ ن کے پٹیشنر سے استفسار کیا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آپ منتخب نمائندے پارلیمنٹ کے معاملے کو عدالت میں کیوں لا رہے ہیں؟‘ 
جج صاحب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم پارلیمنٹ کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ کام آپ لوگوں نے ہی کرنا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اہم پوسٹ ہے، حکومت اور اپوزیشن دونوں کو معاملہ حل کرنا چاہیے۔‘  
چنانچہ پارلیمان میں ہی معاملے کو حل کرنے کے لیے دس دن کی مہلت دے کرعدالت نے سماعت نمٹا دی اور یوں منتخب نمائندگان کو ایک مرتبہ پھر موقع دیا گیا ہے کہ وہ اس تاثر کو زائل کر سکیں کہ وہ مسائل کا حل مل بیٹھ کر تلاش نہیں کر سکتے۔ 

’کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں‘ والی سوچ پنجاب والوں کے لیے کوئی نئی نہیں ہے (فوٹو: اے ایف پی)

وہی منتخب نمائندے، جو پارلیمنٹ کے سکڑتے کردار کا نوحہ اٹھتے بیٹھتے پڑھتے ہیں، دیگر اداروں کی اختیارات سے تجاوز کرنے کی گردان بھی سناتے ہیں لیکن کھوئی ہوئی سپیس واپس حاصل کیسے کرنی ہے اس کے بارے میں نہ ہی کو ئی ٹھوس تجویز دے پاتے ہیں نہ ہی کوئی عملی مظاہرہ نظر آتا ہے۔
پارلیمان، اس میں بیٹھے نمائندوں کے رویوں سے مضبوط ہوتی ہے۔ منتخب قیادت کا سیاست کو کاروبار کا ذریعہ بنانا سب سے بڑا اور تسلیم شدہ الزام ہے۔ اس الزام سے کوئی بھی سیاسی پارٹی چاہے ن لیگ ہو یا پی پی پی، تحریک انصاف ہو یا ق لیگ۔۔۔ مبرا نہیں۔ 
نہ جانے کیسے، اقتدار ملتے ہی ان میں سے کئی کے کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہیں اور فیکٹریاں دو ہندسوں میں جا پہنچتی ہیں۔
اپنے امیج کے بارے میں محتاط شہباز شریف کے دس سالہ دور اقتدار کی جو مبینہ کہانیاں اب سامنے آرہی ہیں ان میں رقم کے تخمینے اور طریقہ کار کی نفاست پر ان کے سیاسی مخالفین  بھی انگلیاں دانتوں میں دبا کر رہ گئے ہیں۔ 
یہ بات سچ ہے کہ ’کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں‘ والی سوچ پنجاب والوں کے لیے کوئی نئی نہیں لیکن پہلی بار شہباز شریف خاندان کے دامن پر بہت گہری چھینٹیں پڑی ہیں۔ 
سنہ 2018 میں پنجاب میں الیکشن کے نتائج  انوکھے بھی تھے اور شاید مقتدر حلقوں کے لیے ایک ’آئی اوپنر‘ بھی۔۔۔ کیونکہ ہوا کا رخ جانتے بوجھتے ہوئے، اپنی سرشت کے خلاف پنجاب نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نواز لیگ کو ووٹ دیا۔

 کالم نگار کے مطابق آصف زرداری پر لگا ’مسٹر ٹین پرسنٹ‘ کا ٹیگ اگلی کئی نسلوں تک پیپلز پارٹی کا پیچھا کرے گا (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن حالیہ منی لانڈرنگ اور ٹی ٹیز کے ہوشربا الزامات سے پہلی مرتبہ پنجاب میں بھی لوگ چونک اٹھے ہیں کہ وہ شہباز شریف جنہوں نے اپنی برانڈنگ ایک سخت گیر ایڈمنسٹریٹر کے طور پر قائم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، ان کی اولاد وزیر اعلیٰ کے دفتر کواپنے ’ذاتی اثاثاجات میں اضافے کے لیے کس بے دریغ طریقے سے استعمال کر تی رہی ہے۔
بالکل اسی طرح، پیپلز پارٹی جیسی نظریے کی دعوے دار جماعت کے سربراہ آصف زرداری پر لگے ’مسٹر ٹین پرسنٹ‘  کے ٹیگ اور چائے والے، فالودے والوں کے اکاؤنٹس کا کھاتہ اگلی کئی نسلوں تک پیپلز پارٹی کا پیچھا کرے گا۔
سیاستدانوں کے لیے اب سوچنے کا وقت ہے کہ ان کو سیاست عزیز ہے یا کاروباری مفادات، نوٹوں والے بنک اکاؤنٹ بہتر لگتے ہیں یا ووٹوں والے بیلٹ باکس؟
آپ نظریے کے سچے اور کھرے ہوں مگر خاندانی اور کاروباری معاملات میں صاف اور شفاف نہ ہوں تو پارلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوریت کی مضبوطی جیسے نعرے بھی کھوکھلے نظر آتے ہیں۔ آخر میں اخلاقی برتری ہی سیاسی برتری بنا کرتی ہے۔
یہ بات طے ہے کہ اب سیاستدان کورٹ کے دونوں طرف نہیں کھیل سکتے اور اگر سمجھوتہ کر کے کھیل جاری بھی رکھ لیں گے تو ہر لمحہ یہ دھڑکا لگا رہے گا کہ کوئی بھی، کبھی بھی فاؤل قرار دے کر انھیں دوبارہ میدان سے نکال باہر کر سکتا ہے۔
سیاست کی یہ گیند محاورتاً نہیں بلکہ حقیقت میں بھی سیاست دانوں کے کورٹ میں ہے۔
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: