Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا گیا

وفاقی کابینہ نے ای سی ایل سے آٹھ نام نکالنے کی منظوری دی جبکہ آٹھ افراد کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ فوٹو: اے ایف پی
وفاقی کابینہ نے مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کی درخواست مستردی کر دی ہے۔ 
منگل کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ کابینہ نے متقفہ طور پر مریم نواز کی ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخوست مسترد کی۔
انہوں نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے ای سی ایل سے آٹھ نام نکالنے کی منظوری دی جبکہ آٹھ افراد کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ کابینہ نے چار افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی بھی منظوری دی۔
قبل ازیں مریم نواز نے اپنا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے سات دسمبر کو لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ تاہم جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں ایک دو رکنی بینچ نے درخواست کو مسترد کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی نظر ثانی کمیٹی کو معاملے پر سات دنوں میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
مریم نواز کو قومی احتساب بیورو نے چودھری شوگر ملز ریفرنس میں بطور ملزم شامل کیا ہے اور ان کو گذشتہ ماہ لاہور ہائیکورٹ نے ضمانت پر رہا کیا ہے۔ 
فردوس عاشق اعوان نے ای سی ایل میں شامل کیے گئے ناموں کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ اس سوال پر کہ جو نئے چار نام ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں اور جو آٹھ موخر کیے گئے ہیں ان کے افراد کے نام کیا ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ
’یہ سیکرٹ معاملہ ہے، نام میرے پاس ہیں مگر بتا نہیں سکتی۔‘

فردوس عاشق اعوان نے میڈیا کو وفاقی کابینہ کے فیصلوں سے آگاہ کیا۔ فوٹو: پی آئی ڈی

جسٹس وقار احمد کے خلاف ریفرنس دائر کرنے یا سپریم کورٹ جانے کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں ابھی مشاورت جاری ہے۔
انہوں نے صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’آپ کی طرح جب میں بھی اس بارے میں پوچھتی ہوں تو کہا جاتا ہے ابھی مشاورت جاری ہے۔‘
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہماری پہلی ترجیح پارلیمنٹ ہے، امید ہے وہاں اتفاق رائے ہو جائے گا، اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر کچھ اور سوچا جائے گا۔
واضح رہے کہ مریم نواز نے اپنے والد نواز شریف کی عیادت کے لیے بیرون ملک جانے کی استدعا کر رکھی ہے اور ان کی ایک درخواست لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے۔

شیئر: