Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مظاہروں میں شرکت پر جرمن شہری ملک بدر

جرمن طالب علم نے چنئی میں جاری دو مظاہروں میں شرکت کی تھی
انڈیا میں ایک جرمن طالب کو متنازع شہریت بل کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شرکت کے باعث انڈین حکام نے ملک چھوڑنے کا حکم جاری کیا ہے۔ 
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق 24 سالہ جرمن شہری جیکب لنڈنتھل ایکسچینج پروگرام کے تحت فزکس میں ماسٹرز کے طالب علم ہیں، اور انہوں نے چنئی میں جاری دو مظاہروں میں شرکت کی تھی۔ 
ٹوئٹر پر ان کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں انہوں نے ایک پلےکارڈ اٹھا رکھا تھا جس میں یہ الفاظ درج تھے: ’1933-1945 ہم یہ دیکھ چکے ہیں‘، جو نازی جرمنی کا ایک حوالہ تھا۔ 
جیکب لنڈنتھل کا کہنا تھا کہ پیر کو انہیں انڈیا کے امیگریشن حکام نے طلب کیا تھا اور انہیں ’کیمپس کے باہر سیاسی سرگرمیوں میں شرکت سے‘ سٹوڈنٹ ویزا کی خلاف ورزی کے بارے میں بتاتے ہوئے فورا ملک چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ’میں وہاں اپنے سٹوڈنٹ ویزے کی خلاف ورزی کرنے کے لیے حکومت مخالف مظاہروں میں گیا تھا یا ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا تھا۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایسا ہی باور کروایا گیا۔ 

’1933-1945 ہم یہ دیکھ چکے ہیں‘

روئٹرز کے مطابق انڈیا کی وزارت داخلہ نے اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا جبکہ وزارت خارجہ کے ترجمان سے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ 
دوسری جانب انڈیا میں شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے تاحال جاری ہیں۔ منگل کے روز بھی ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں جن میں دہلی اور مغربی بنگال اہم ہیں۔
اس سے قبل گذشتہ روز دہلی کے علاوہ جنوبی ریاست تمل ناڈو کے دارالحکومت چینئی (مدراس) میں بھی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے جبکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جنتر منتر سمیت دیگر مقامات پر بھی مظاہرے متواتر جاری ہیں۔
متنازع قانون کے خلاف ملک بھر میں جاری مظاہروں میں اب تک 21 افراد جان کی بازی ہار گئے جن میں سب سے زیادہ 16 افراد اترپردیش میں ہلاک ہوئے ہیں۔
کانگریس رہنما راہل گاندھی اور ان کی بہن پرینکا گاندھی میرٹھ میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین سے ملنے پہنچے تو انھیں شہر سے باہر ہی روک دیا گیا۔
کانگریس نے راہل گاندھی کا ایک کلپ ٹویٹ کیا ہے جس میں وہ یہ کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ انھیں روک لیا گیا ہے اور کوئی کاغذ نہیں دکھایا گیا ہے۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ وہاں دفعہ 144 نافذ ہے اس لیے امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر راہل گاندھی کو وہاں جانے نہیں دیا گیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس سے قبل بہت سے رہنماؤں کو کشمیر کے ایئرپورٹ سے واپس بھیجا گیا تھا اور مغربی بنگال میں ممتا بینرجی نے بھی بہت سے لوگوں کو کسی دورے سے روکنے کی کوشش کی ہے۔

 کئی طلبہ و طالبات نے انڈیا کے صدر کے ہاتھوں اسناد اور میڈلز لینے سے انکار کر دیا (فوٹو:اے ایف پی)

انڈیا میں گذشتہ روز جنوب میں ریاست تمل ناڈو کے قریب مرکز کے زیر انتظام علاقے  کے سب سے بڑے شہر پانڈی چیری میں کئی طلبہ و طالبات نے انڈیا کے صدر کے ہاتھوں اسناد اور میڈلز لینے سے انکار کر دیا جبکہ منگل کو معروف بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایم اے آرٹس تاریخ کےطالب علم رجت نے وہاں جاری کانووکیشن میں ڈگری لینے سے انکار کر دیا ہے۔
طالبعلم کا کہنا ہے کہ 'میں نے آج اپنی ڈگری اس لیے نہیں لی کیونکہ 19 تاریخ کو ہوئے سی اے اے کے خلاف مظاہرے میں بہت سارے سٹوڈنٹس کو گرفتار کیا گیا ہے، میں ان کی گرفتاری کی مخالفت کرتا ہوں۔ میں اس فرقہ وارانہ قانون کی مخالفت کرتا ہوں۔ میں ملک کو تقسیم کرنے والے ہر طرح کے قانون کی مخالفت کرتا ہوں۔ خاص طور پر وہ طلبا جن کا آج کانووکیشن تھا وہ آج جیل میں ہیں اور یونیورسٹی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، میں اس لیے یہ ڈگری نہیں لوں گا۔'

جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جنتر منتر سمیت دیگر مقامات پر بھی مظاہرے متواتر جاری ہیں (فوٹو:اے ایف پی)

خیال رہے کہ 19 تاریخ کے مظاہرے میں وارانسی میں 69 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔
ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق لکھنؤ کی خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی سے ایک طالب علم احمد رضا خان کو شہریت کے ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف مظاہرے کی کال دینے اور فیس بک پر اس سے متعلق مواد پوسٹ کرنے پر یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ہے۔
اتر پردیش میں حکومت نے سخت موقف اپنا رکھا ہے اور سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ ریاست میں اب تک تقریبا ایک ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جس میں نامور شخصیات بھی شامل ہیں۔ صرف لکھنؤ میں تقریبا ڈیڑھ سو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں معروف سماجی کارکن صدف جعفر کے ساتھ تھیٹر آرٹسٹ دیپک کبیر بھی شامل ہیں۔ دوران حراست انہیں مبینہ طور پر زدوکوب کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔
 
معروف سماجی کارکن اور سیاسی رہنما یوگیندر یادو نے دیپک کبیر کے بارے میں ٹویٹ کی کہ انھوں نے 19 تاریخ کو لکھنؤ کے حضرت گنج کے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی تھی۔ دوسرے دن جب وہ گمشدہ مظاہرین کی تلاش میں پولیس سٹیشن پہنچے تو انھیں حراست میں لے لیا گیا (ان کے نام کو بعد میں ہاتھ سے لکھا گیا) ان کو بے رحمی کے ساتھ پیٹا گیا اور ان کے خلاف بہت سے مجرمانہ چارجز لگائے گئے۔

شہریت ترمیمی بل کے خلاف مظاہرے میں وارانسی میں 69 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا (فوٹو:اے ایف پی)

اسی طرح صدف جعفر کے بارے میں فلم ساز میرا نائر نے ٹویٹ کیا ہے اور مدد کی اپیل کی ہے۔
اب ہمارا انڈیا ایسا ہے!ہولناک۔  ہماری (فلم) سوٹیبل بوائے کی اداکارہ صدف جعفر کو لکھنؤ کے پر امن مظاہرے میں شامل ہونے پر مارا پیٹا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان کی رہائی کے مطالبے میں ہمارا ساتھ دیں۔
شہریت کے متنازع قانون میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی چھ اقلیتی برادریوں کو انڈیا میں شہریت دینے کی بات کی گئی جس میں مسلمان شامل نہیں ہیں اسی لیے اسے مسلم مخالف قرار دیا جا رہا ہے جبکہ انڈیا میں حزب اختلاف کی اہم سیاسی جماعت کانگریس سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے اسے آئین ہند کے آرٹیکل 14 اور سیکولرزم کی روح کے منافی قرار دیا ہے۔
دوسری جانب انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے دلی کے رام لیلا میدان میں کہا کہ اس سے انڈیا کے مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں یہ کسی بھی شہری کے خلاف نہیں ہے۔

شیئر: