Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں پرتشدد مظاہرے، 20 ہلاک

ولیس اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان مختلف علاقوں میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔ فوٹو:اے ایف پی
انڈیا میں شہریت کے قانون میں ترمیم کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے سلسلے میں ہر نئے روز کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور سنیچر کو ہوئی تازہ جھڑپوں میں مزید نو افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور اس طرح ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد 20 تک پہنچ گئی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سنیچر کو انڈیا کے شہروں چنائی اور پٹنہ میں مظاہرین کے پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں جن کے نتیجے میں یہ ہلاکتیں ہوئیں۔
انڈین خبررساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق جمعے کو اتر پردیش میں شہریت کے قانون میں ترمیم کے خلاف مظاہروں میں ایک بچے سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق اس قانون کے خلاف اب تک ہوئے مظاہروں میں 20 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
حکام کے مطابق جمعے کو ریاست میں بھیڑ مشتعل ہو گئی تھی۔
چار افراد میرٹھ ضلعے میں ہلاک ہوئے، جبکہ ایک بچہ وارانسی میں ہونے والی بھگدڑ میں کچل کر اس وقت ہلاک ہوگیا جب جعمے کو پولیس بھیڑ کا تعاقب کر رہی تھی۔
جمعے کی نماز کے بعد ملک کی تقریباً تمام تر ریاستوں میں شہریت کے نئے قانون کے خلاف پر امن مظاہرے کیے گئے لیکن کئی جگہ پولیس اور بھیڑ کے درمیان تصادم بھی نظر آيا۔ 
پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے پتھراؤ کیا اور پولیس پر فائرنگ کا بھی دعویٰ کیا گيا ہے۔ اترپردیش کے پولیس سربراہ او پی سنگھ نے کہا کہ 50 پولیس والے اس میں زخمی ہوئے ہیں۔
اب تک بجنور، سنبھل، فیروزآباد، کانپور، وارانسی (بنارس) اور میرٹھ سے ہلاکتوں کی خبریں ہیں۔
پولیس اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان بھدوئی، بہرائچ، امروہہ، فرخ آباد، غازی آباد، مظفرنگر، سہارنپور، ہاپڑ، ہاتھرس، بلند شہر، ہمیرپور اور مہوبا سے بھی جھڑپ کی خبریں ہیں۔ پولیس نے بھیڑ پر قابو پانے کے لیے کئی جگہ آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا سہارا لیا۔

جامع مسجد بنگلور میں نماز جمعہ کے وقت  پولیس کے دستے تعینات تھے۔ فوٹو:اے ایف پی

مبصرین کا خیال ہے کہ سوائے مغربی بنگال کے جہاں جہاں بھی بی جے پی حکومت ہے وہاں وہاں پرتشدد واقعات ہوئے ہیں جبکہ دہلی میں پولیس وفاق کے اختیار میں ہے نہ کہ دلی کی عام آدمی پارٹی کے اختیار میں ہے۔
اترپردیش حکومت نے شہریت کے قانون کے خلاف مظاہرے کو دیکھتے ہوئے سنیچر کے روز ریاست بھر میں تمام سکول اور کالج کو بند رکھنے کا حکم جاری کیا ہے۔
دلی کی تاریخی جامع مسجد میں جمعے کی نماز کے بعد جلوس نکالنے کا اعلان دلت رہنما چندشیکھر آزاد نے کیا تھا۔ پولیس نے انھیں حراست میں لینے کی کئی ناکام کوشش کی۔ انھوں نے جامع مسجد سے جنتر منتر تک ریلی کا اعلان کیا تھا لیکن پولیس نے انھیں اجازت نہیں دی اور جلوس کو نکلنے سے روک دیا جبکہ دلی گیٹ پر آئی ٹی او سے قبل پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم نظر آیا۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بہت سے مظاہرین اس میں زخمی ہوئے ہیں اور ان کے بدن سے خون نکلتا ہوا دیکھا گیا ہے۔ جبکہ بہت سے لوگوں کو حراست میں بھی لیا گیا جس کےخلاف دلی پولیس کے ہیڈکواٹر کے باہر مظاہرہ کیا گیا ہے۔
اس سے قبل جعمرات کو لال قلعے کے سامنے مظاہرے کو بھی پولیس نے اجازت نہیں دی اور کئی سرکردہ رہنماؤں سمیت سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا اور انھیں دہلی کے باہر لے جا کر چھوڑ دیا گیا۔ کئی علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز بند رہی جبکہ ایک درجن سے زیادہ میٹرو سٹیشن بھی بند رہے۔

یونیورسٹیوں کے طلبا کی جانب سے بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ (فوٹو:اے ایف پی)

دوسری طرف اترپردیش سے ملحق ریاست بہار میں حزب اختلاف کی اہم پارٹی راشٹریہ جنتا دل نے شہریت کے قانون کے خلاف بہار بند کرنے کا اعلان کیا ہے، اس اعلان کے بعد جگہ جگہ ریلیاں نکالی جا رہی ہیں جو کہ اب تک پرامن ہیں۔
اخبار دی ہندو کے مطابق آسام کے وزیر اعلیٰ سربانند سونووال نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں رہنے والے ڈیڑھ کروڑ ہندوؤں کو شہریت دینے اور مسلمانوں کو ریاست سے نکالنے کے پروپگینڈے سے امن پسند ریاست میں بدامنی پھیلی ہے۔ خیال رہے کہ سب سے پہلے ریاست آسام سے ہی پرتشدد واقعات کی ابتدا ہوئی تھی جہاں کم از کم پانچ افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں آئی تھیں۔
جنوبی ریاست کرناٹک کے منگلور میں کرفیو نافذ ہے جبکہ گذشتہ روز حراست میں لیے جانے والے صحافیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ منگلور سے دو مظاہرین کے مرنے کی اطلاعات ہیں۔ پولیس نے کیرالہ کے ان صحافیوں کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ مرنے والوں کی لاش کو دیکھنے ہسپتال پہنچے تھے۔

جنوبی ریاست کرناٹک کے منگلور میں کرفیو نافذ ہے۔ فوٹو:اے ایف پی

انڈین میڈیا کے مطابق کرناٹک کے ایک وزیر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس نے گودھرا جیسے حالات کی دھمکی دی ہے۔ سی ٹی روی نے دھمکی دی کہ اگر اکثریت کے ’صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو گودھرا جیسے حالات ہو جائيں گے۔‘ کہا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ بی ایس یدورپا نے اس بات کے لیے اپنے وزیر کی سرزنش کی ہے۔
خیال رہے کہ سنہ 2002 میں گجرات میں ہونے والے مسلم مخالف فسادات میں گودھرا میں بہت سی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں