Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرینوں کا اجرا: کیا سیاسی ’پوائنٹ سکورنگ‘ ؟

ہر نئی حکومت اپنے قیام کے بعد عوام کو سبز باغ دکھاتی ہے، ان کی زندگیاں چند دنوں میں بدلنے کے دعوے کرتی ہے اور پھر ان دعوؤں کو سچا ثابت کرنے کے لیے کچھ حقیقی کام اور کچھ سطحی مگر دلفریب اقدامات کیے جاتے ہیں۔
انہی میں سے ایک نئی ٹرینوں کا اجراء ہے جو پاکستان میں تقریبا ہر حکومت کرتی ہے۔
تحریک انصاف نے جب اقتدار سنبھالنے  کے بعد مشرف دور میں وزیر ریلوے رہنے والے شیخ رشید کو ایک مرتبہ پھر یہ وزارت دی توانہوں نے آتے ہی 24 نئی مسافر ٹرینوں اور 30 نئی مال بردار گاڑیاں چلانے کا اعلان کر دیا۔
ان کی اعلان کردہ نئی ٹرینوں میں دھابیجی، شاہ لطیف ایکسپریس، موہنجوداڑو ایکسپریس، روہی پیسنجر ایکسپریس، تھل میانوالی ایکسپریس، فیصل آباد نان سٹاپ اور راولپنڈی ایکسپریس سمیت کئی دیگر ٹرینیں شامل ہیں۔
اس سے قبل مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں بھی متعدد نئی ٹرینوں کا اجرا کیا گیا تھا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر حکومت اتنی بڑی تعداد میں نئی ٹرینیں چلاتی ہے تو پھر ملک میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کیوں نہیں ہوتا اور ریلوے کا محکمہ ہمیشہ خسارے ہی میں کیوں رہتا ہے؟
ریلوے حکام کی جانب سے ایک پارلیمانی کمیٹی کو پیش کی  جانے والی حالیہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ نئی چلائی جانے والی دس ٹرینوں میں سے چھ خسارے میں ہیں۔
ریلوے حکام کے مطابق اپریل 2019 تک 43 ارب روپے کمائے گئے جبکہ اخراجات 72 ارب روپے ہیں۔  حکومت سے  30 ارب روپے کی سبسڈی لینے کے باوجود خسارہ ہے۔
حکام نے بتایا کہ اس بار کھڑی بوگیوں کو بھی نئی ٹرینیں بنا کر استعمال کیا گیا ہے حالانکہ مروجہ ضابطے کے تحت دستیاب بوگیوں کی کل تعداد کا پندرہ فیصد خالی رکھنا پڑتا ہے کیونکہ اس سے لوڈ مینیجمنٹ بہتر ہوتی ہے اور ٹرینوں کی تاخیر کو روکنے میں مدد ملتی ہے۔

مسلم لیگ نواز کے پانچ سالہ دور حکومت میں ٹرینوں کی کل تعداد 98 تھی فوٹو: اے ایف پی

رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلوے کے پاس مسافر کوچز کی کل تعداد 1460 ہے جبکہ 2010 سے 2015 تک یہی تعداد 1511 تھی، جس میں بتدریج کمی آئی ہے۔
مسلم لیگ نواز کے پانچ سالہ دور حکومت میں ٹرینوں کی کل تعداد 98 تھی جن کے کئی چھوٹے روٹس کو بند کر کے نئے روٹ نکالے گئے تھے۔ دوسرے الفاظ میں اس حکومت نے 12 نئی ٹرینیں چلائی تھیں۔
اسی طرح 2008 سے 2013 تک پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں نجی شعبے کے تعاون سے ایک بزنس ٹرین چلائی گئی جو لاہور سے کراچی تک تقریبا نان سٹاپ تھی اور اس کا نظم و نسق نجی شعبے سے مل کے چلایا جاتا رہا۔
اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے دور میں پٹڑی پر چلنے والی ٹرینوں کی تعداد 104 تھی اور دس روٹس میں تبدیلیاں کی گیئں جن کو نئی ٹرینوں کا نام دیا جاتا ہے۔ تاہم اس وقت مسافر کوچز کی تعداد 1601 تھی۔
موجودہ وزیر ریلوے نے لاہور میں تین نئی شٹل ٹرینز چلانے کا اعلان کیا ہے جو لاہور سے واہگہ، لاہور سے رائیونڈ اور لاہور سے گوجرانوالہ تک جائیں گی۔ ان میں سے واہگہ سے لاہور تک کی شٹل ٹرین کو 22 سال بعد شروع کر دیا گیا ہے۔
پاکستان ریلویز کے سابق جنرل مینیجر انجم پرویز کے مطابق نئے روٹ بنا کر ٹرینوں کو نئے نام دے کر چلانا سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہوتی ہے، جس کا مقصد (بغیر کوئی خاص کام کیے) کارکردگی دکھانا ہوتا ہے۔
’اس طرح کی نئی ٹرینیں ہر دور میں چلتی ہیں۔ چونکہ آپ ایک نیا رووٹ ترتیب دے رہے ہیں اور اس کو ایک نیا نام بھی دے رہے ہیں تو اسے نئی ٹرین ہی کہیں گے۔‘

پاکستان ریلوے کے ایک اعلی افسر کے مطابق موجودہ حکومت نے جو 24 نئی ٹرینیں چلائیں ہیں اس سے صورت حال اور خراب ہوئی ہے. فوٹو: اے ایف پی

ان کا کہنا تھا ’البتہ انجن اور بوگیاں پرانی ہی ہوتی ہیں جو پہلے کسی نا کسی طور پر دوسری ٹرینوں میں استعمال ہو رہی ہوتی ہیں یا ریزرو ہوتی ہیں۔ بعض اوقات جو ٹرینیں کم منافع بخش ہوتی ہیں ان کا صرف نام تبدیل کر کے انہیں چلایا جاتا ہے۔‘
انجم پرویز کے مطابق مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں ایسی کئی ٹرینز چلائی گئیں لیکن ایک ٹرین گرین لائن ایسی تھی جس کو حقیقی معنوں میں نئی ٹرین کہا جا سکتا تھا کیونکہ اس کی بوگیاں انجن اور تھیم سب نیا اورانفرادی تھا۔
’اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں نجی شعبے کے تعاون سے پاکستان کی تیز ترین بزنس ٹرین چلائی گئی جو لاہور سے کراچی 17 گھنٹے میں پہنچتی ہے۔‘
پاکستان ریلوے کے ایک اعلی افسر کے مطابق موجودہ حکومت نے جو 24 نئی ٹرینیں چلائیں ہیں اس سے صورت حال میں بہتری آنے کے بجائے اور خراب ہوئی ہے کیونکہ جتنی بھی اضافی اور ریزرو بوگیاں تھیں ان کو ملا کر نئی ٹرینیں چلا دی گئیں ہیں۔ اب اگر ایک بھی ٹرین کو پٹڑی پر کوئی مسئلہ ہو جائے تو متبادل ٹرین دستیاب نہیں ہوتی۔
حکام کے مطابق اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے چین سے 274 نئی کوچز کے حصول کا معاملہ الجھا ہوا ہے۔ جس دن وہ کوچز آگئیں، اس دن صورتحال بہتر ہو جائے گی۔

شفیع غوری کے مطابق اس منصوبےکے تحت ریلوے لائین کو ڈبل ٹریک اور پورے نظام کو جدید بنایا جائے گا فوٹو: اے ایف پی

محکمہ ریلوے کی جانب سے شائع کی جانے والی سالانہ رپورٹ 2018 کے مطابق اس وقت ریلوے کا ٹریک، جس پر ٹرینیں رواں دواں ہیں، وہ 9195 کلو میٹر ہے جبکہ اس ٹریک پر اس وقت 120 ٹرینیں چل رہی ہیں اور کُل ریلوے انجنوں کی تعداد 478 ہے، جن میں سے پانچ بھاپ پر چلنے والے ہیں۔
ٹریک کی بہتری
پاکستان ریلویز کے چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) پراجیکٹ کوارڈینیٹر شفیع غوری کے مطابق اس منصوبےکے تحت ریلوے لائین کو ڈبل ٹریک اور پورے نظام کو جدید بنایا جائے گا۔
ماہرین کے مطابق سی پیک اس وقت پاکستان ریلویز کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے اور اس پر عملدرآمد ریلوے کی بحالی کی واحد امید ہے۔
واضح رہے کہ موجودہ حکومت اور ماضی میں اقتدار میں رہنے والی حکومتوں نے شہرت کی خاطر نئی ٹرینوں کے اعلانات تو باربار کیے لیکن ٹریک کی بہتری کے لیے کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ حکام اب بھی ٹریک بہتر بنانے کے لیے سی پیک سے امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔

شیئر: