Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

واٹس ایپ ہیکنگ کے واقعات، سائبر فراڈ سے کیسے بچا جائے؟

حالیہ دنوں میں بہت سے افراد کسی نہ کسی طریقے سے سائبر فراڈ کا شکار ہوئے ہیں (فوٹو: پکسابے)
اسلام آباد کے رہائشی محمد ہارون کو ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ان کی ڈگریز جو انہوں نے ایچ ای سی (ہائر ایجوکیشن کمیشن) کو تصدیق کے لیے بھیجی ہیں، ان کی رجسٹریشن کے لیے مزید معلومات درکار ہیں۔
محمد ہارون واقعی اپنی ڈگریاں ایچ ای سی کو بھیج چکے تھے اس لیے انہیں یہ کال مشکوک نہیں لگی۔
کال کرنے والے نے کہا کہ وہ ایک کوڈ بھیج رہا ہے، جسے محمد ہارون کو تصدیق کے لیے شیئر کرنا ہوگا۔ کوڈ بھیجنے کے کچھ ہی دیر بعد ان کا واٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک ہو گیا۔
محمد ہارون کو اپنے اکاؤنٹ تک دوبارہ رسائی حاصل کرنے کے لیے پورا ایک دن لگ گیا۔ اکاؤنٹ تو واپس مل گیا لیکن ہیکر نہ صرف ان کا اہم ڈیٹا چوری کر چکا تھا بلکہ ان کے قریبی لوگوں کو میسجز تک بھیجے گئے جن میں ان کے نام پر فوری قرضے کی درخواست کی گئی تھی۔
محمد ہارون ہی اس فراڈ کا شکار نہیں ہوئے بلکہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں واٹس ایپ ہیک ہونے کے واقعات میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد آئے روز کسی نہ کسی طریقے سے سائبر فراڈ کا شکار ہو رہے ہیں۔ 

واٹس ایپ ہیکنگ کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی محدود صلاحیت اور متاثرہ افراد کی خاموشی ان واقعات کو مزید بڑھاوا دے رہی ہے۔ اگر صارفین بروقت شکایت کریں اور بنیادی سکیورٹی اقدامات اپنائیں تو ان حملوں سے بچا جا سکتا ہے۔
سائبر سکیورٹی کے ماہر محمد اسد الرحمان نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ واٹس ایپ کے ذریعے فراڈ تیزی سے پھیل رہا ہے۔
’جعلساز فون کال یا میسج کے ذریعے لوگوں سے واٹس ایپ کا او ٹی پی حاصل کرکے ان کا اکاؤنٹ ہتھیا لیتے ہیں۔ اس کے بعد متاثرہ شخص کے دوستوں اور رشتہ داروں کو میسجز بھیج کر مالی مدد کا جھانسہ دے کر پیسے بٹورنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘

سائبر سکیورٹی کے ماہر محمد اسد الرحمان نے مشورہ دیا کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ’ٹو سٹیپ ویریفیکیشن‘ لازمی آن رکھیں (فوٹو: پکسابے)

انہوں نے بتایا کہ ’بعض کیسز میں جعلساز کسی فرد کے نام پر جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی بنا لیتے ہیں اور اُس کے جاننے والوں کو ایڈ کرکے مالی فراڈ کرتے ہیں۔‘
اس فراڈ سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہییں، اس سوال کے جواب میں محمد اسدالرحمان نے کہا کہ ’لوگوں کو چاہیے کہ کسی بھی صورت اپنا او ٹی پی کسی کے ساتھ شیئر نہ کریں چاہے وہ خود کو کوئی سرکاری نمائندہ، دوست یا فیملی ممبر ہی کیوں نہ ظاہر کرے۔‘
انہوں نے مشورہ دیا کہ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ’ٹو سٹیپ ویریفیکیشن‘ لازمی آن رکھیں تاکہ اضافی تحفظ حاصل کیا جا سکے۔ 

وٹس ایپ ہیک ہونے کی صورت میں کیا کیا جائے؟

سائبر سکیورٹی کے ماہر محمد اسدالرحمان کے مطابق اگر کسی کا اکاؤنٹ ہیک ہو جائے تو فوری طور پر واٹس ایپ سپورٹ سے رابطہ کیا جائے اور معاملے کی شکایت متعلقہ اداروں جیسا کہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی میں درج کرائی جائے، تاکہ قانونی کارروائی ممکن ہو سکے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے فراڈ سے بچنے کا سب سے مؤثر طریقہ آگاہی ہے۔ ’عوام کو اپنی آن لائن سکیورٹی کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور ہر مشکوک کال یا میسج کی تصدیق خود کرنے کی عادت اپنانی چاہیے۔‘
سائبر حملوں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ماہر انجینیئر عمر کیانی سمجھتے ہیں کہ واٹس ایپ ہیکنگ کے بڑھتے ہوئے کیسز کی سب سے بڑی وجہ ’لوگوں کا اپنی ڈیجیٹل سکیورٹی کو سنجیدہ نہ لینا ہے۔‘
اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ’ہیکرز اکثر سماجی انجینیئرنگ کے ذریعے دھوکہ دیتے ہیں جیسا کہ آپ کو کسی دوست کے نمبر سے میسج آئے کہ یہ کوڈ بھیجو، اور آپ بغیر سوچے سمجھے فوراً وہ کوڈ فارورڈ کر دیتے ہیں۔‘
عمر کیانی نے مزید کہا کہ ’زیادہ تر لوگ ٹو فیکٹر آتھینٹیکیشن‘ آن نہیں کرتے حالانکہ یہ صرف چند سیکنڈز میں سیٹ ہو جاتا ہے۔ اگر ایک بار آپ کا اکاؤنٹ ہیک ہو جائے تو آپ کی تصاویر، چیٹس، رابطے اور گروپس سب ہیکر کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہ یا تو بلیک میل کرتا ہے یا آپ کے نام سے دوسروں سے پیسے بٹورتا ہے۔‘

 

شیئر: