Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرشماتی سیاست دان کی سات خصوصیات

بھٹو نے عام آدمی اور متوسط طبقے کے کردار کو اہم بنایا۔ فوٹو سوشل میڈیا
ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں جو انتقال کے بعد بھی چارعشروں تک ملکی سیاست پر چھائے رہے۔ اس عرصے میں ملکی سیاست واضح طور پر بھٹو حامی اور بھٹو مخالف کیمپوں میں بٹی رہی۔ اس تقسیم میں اب کچھ تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔
پانچ جنوری 1928 کو جاگیردار گھرانے میں پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو صرف مقبول لیڈر ہی نہیں تھے بلکہ ذہین، پڑھے لکھے اور حالات سے آگاہ سیاست دان بھی تھے۔

بھٹو سے پہلے کی سیاست

پاکستان میں جاگیرداروں کا مخصوص سیاسی کلچر رہا ہے۔ ستر کے عشرے اور اس سے قبل بھی اکثرسیاست دان جاگیردار تھے۔ خود کو بڑا سمجھنا، حکومت یا حکومتی اہلکار کے سامنے جھک جانا۔ اپنے مخالفین اور ماتحتوں سے ظالمانہ طریقے سے نمٹنا ان کا مخصوص لائف سٹائل تھا۔
لہٰذا سیاست اور اقتدار میں بھی دھونس اور نوکرشاہی یا حکومت کی پشت پناہی ضروری سمجھی جاتی تھی۔ یہی لوگ اسمبلیوں یہاں تک کہ سیاسی جماعتوں پر حاوی ہوتے تھے۔ باقی لوگ زمیندار تو نہ تھے لیکن ان  کے سیاسی کلچر پر ہی چلتے تھے۔
سیاسی جاگیردار کلچرکیا تھا؟ بھٹو نے قومی اسمبلی میں ایک تقریر میں اس کو بیان کیا تھا۔
’جب جاگیردار ایک دوسرے سے لڑتے ہیں توعوام پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کوئی ترقی نہیں ہوتی، کوئی کارخانہ نہیں لگتا، کوئی سڑک تعمیر نہیں ہوتی۔ بدترین اندھیرا اورغربت چھائی رہتی ہے۔ صرف گنتی کے لوگ ترقی کرتے ہیں یا خوشحال ہوتے ہیں۔ آپس کی لڑائیاں، عام آدمی کا استحصال، معاشی اور سماجی ترقی سے بیگانگی ہے‘

بھٹو کا کرشمہ کیا تھا؟

مورخین کے مطابق سات چیزوں نے بھٹو کو کرشماتی بنایا۔
 پہلا یہ کہ بھٹو سے پہلےعام آدمی سیاست میں غیر مؤثر یا غیر فعال تھا۔ سیاست پر جاگیردار چھائے ہوئے تھے۔ متوسط طبقے کا کوئی کردار نہیں بنتا تھا۔ بھٹو نے عام آدمی اور متوسط طبقے کے کردار کو اہم بنایا۔

ذوالفقارعلی بھٹو انتقال کے بعد بھی ملکی سیاست پر چھائے رہے۔ فوٹو اےا یف پی

دوسرا، بھٹو جب آئے تو عام آدمی کو لگا کہ اب جو شخص ان کے سامنے ہے وہ دانشور ہے اور بڑے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ لہٰذا اس کی بات میں وزن ہے۔ یہ جاگیردار، صنعت کار اور بیوروکریسی سے نمٹ سکتا ہے۔ اس سے قبل وہ سمجھتا تھا کہ ان قوتوں سے کوئی نمٹ نہیں سکتا۔ لہٰذا عام آدمی وہ کسان ہو یا مزدور بھٹو کے پیچھے ہو لیا۔
تیسرا، بائیں بازو کی تنظیمیں سرگرم ضرور تھیں لیکن جاگیرداروں اور نوکرشاہی کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے وہ سیاست کے نظام کو بدلنے میں ناکام رہیں۔  کوئی قدآور اور بااثر شخصیت ان کے ساتھ نہیں تھی۔ جب بھٹو کی شکل میں روایتی سیاسی بنیادوں کو للکارنے والا ایک بااثر متبادل ابھرا جو سوشلزم کا نعرہ بھی لگا رہا تھا تو انہوں نے اس متبادل کی حمایت کی۔
چوتھا، حکمران طبقے کے لوگوں کو محسوس ہوا کہ بھٹو اتنا جانتا ہے کہ ایوب خان جیسا بندہ بھی اس کی بات پر چلتا ہے۔ یہ اعتراف امریکیوں نے اپنی رپورٹس میں بھی کیا۔
پانچواں، پاکستان کی سیاست میں انڈیا سے دشمنی اضافی مارکس رکھتی ہے۔ اس کا اظہار بھٹو نے 1965 کی جنگ اور بعد میں معاہدہ تاشقند کے موقع پر برملا اور اونچی آواز میں کیا۔ لہٰذا وہ اس حلقے میں بھی قابل قبول لیڈر بن گئے۔
چھٹا، نہرو کی طرح بھٹو بھی شاہوکار گھرانے سے تعلق رکھنے والے دانشوراور سوشلسٹ نظریات کے حامی سیاست دان تھے۔ انہی کی طرح اچھے غیر ملکی اداروں میں تعلیم پائی۔ دونوں رہنما حکمران طبقے کے لیے بھی پرکشش بنےاور دونوں کو عوام سے بے پناہ محبت ملی۔

 شملہ معاہدے سے ہزاروں فوجیوں کی رہائی بھٹو کی بڑی کامیابی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

نہرو اپنے علم اور دانش کی وجہ سے بیک وقت سیاست دانوں، نوکرشاہی اور فوج پر حاوی رہے، بھٹو کے لیے بھی یہی سمجھا جاتا ہے۔
ساتویں وجہ یہ تھی کہ بھٹو نے ملک کے حکمرانوں کو بھی یہ دکھایا کہ عوام کس طرح سے طاقت ہیں۔ بقول ایک پرانے جیالے کے بھٹو صاحب نے وڈیروں اور حکمران طبقے کو عوام سے ڈرا کر رکھا۔ اور وہ اس ڈر میں آ بھی گئے۔
بھٹو خطرہ مول لینے والے سیاست دان تھے۔ بیک وقت متضاد طبقوں کو اپنے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہوئے جس نے انہیں کرشماتی رہنما بنا دیا۔

بھٹو کی سیاست اور انداز

وہ جمہوریت پسند تھے لیکن آمر بھی رہے، جدید  نظریات و رجحانات کے ساتھ، پاکستانی قوم پرست مگرعلاقائی رجحانات رکھنے والے بھی تھے۔ سیکولر بھی لیکن ضرورت پڑنے پر اسلام پسندوں کو گلے لگا لیا۔ ان کثیر اور متضاد  کرداروں کی وجہ سے کوئی بھی پاکستان کا لیڈر اس طرح نہیں ابھر سکا۔
سیاست  میں بڑے بڑے جلسے جلوس، لمبی تقاریر بھٹو کا سٹائل تھا ہی، لیکن عادات واطوار میں بھی مخصوص سٹائل تھا۔ ان کی چال ڈھال، کپڑے پہننے کا سلیقہ، بات چیت اور تقریر کا انداز بعد میں کئی سیاست دانوں بشمول ان کے مخالفین نے اپنانے کی کوشش کی۔ بعض سیاسی رہنماؤں نے بھٹو کی تقاریر کی ویڈیو کیسٹس حاصل کر کے باقاعدہ ان کی نقل کرنے کی بھی کوشش کی۔

بھٹو کا مخصوص سٹائل تھا جو ان کے مخالفین نے بھی اپنانے کی کوشش کی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

بھٹو حکومت کا کریڈٹ اور مخالفت

بھٹونے ملک میں زمینی اصلاحات کیں، بڑی صنعتوں اور بینکوں کو قومی تحویل میں لیا۔ سماجی بہبود کے شعبے میں ریاست کا رول بڑھایا اورمعاشی اورسماجی اصلاحات کیں۔ پسے ہوئے طبقات کسانوں، مزدوروں کو کئی حقوق دیئے۔ قوم پرستوں سے مذاکرات  کر کے ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا۔ بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ کیا۔ اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کی۔ اگرچہ 73  کے آئین کے بعد مارشل لا لگے ، طالع آزماؤں نے ترامیم کرکے اس دستاویز کا حلیہ بگاڑا، لیکن ہر بار ملک کو واپس بھٹو کے دیے ہوئے آئین پرہی لانا پڑا۔
یہ المیہ تھا کہ بھٹونے 1970 کے انتخابات میں جس روایتی سیاست اور مذہبی بیانیے کو شکست دی اپنے اقتدار کی نصف مدت کے بعد اسی بیانیہ کو گلے لگایا۔ وہ روایتی سیاست کی طرف بڑھے۔ مزید یہ کہ جنہوں نے ان کو بنایا ان سے بگاڑی، یہیں سے ان کا زوال شروع ہوا۔
نعروں اور بعض اصلاحات کے ذریعے بھٹو نے عوام کو سیاسی شعورتو دیا لیکن مخالف آواز یا سڑکوں پر آنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا بھی گیا۔

بھٹو کی پارٹی سیاسی قوت ہونے کے باوجود اپنے بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

بھٹو کی میراث اور موجودہ پیپلزپارٹی

بھٹو کے بعد پیپلزپارٹی آمرانہ و نیم آمرانہ تسلط کے خلاف مسلسل جدوجہد کرتی رہی۔ حکومت میں بھی آئی، لیکن کرپشن اور خراب حکمرانی کی لپیٹ میں آ گئی۔ سیاسی مصلحت کے تحت اسٹیبلشمنٹ کی لائن اختیار کرنے پر تنقید کا نشانہ بنی۔ بینظیر بھٹو اور بھٹو کے عدالتی قتل کے معمے عشروں بعد بھی حل نہیں ہو سکے۔
تاریخ میں بھٹو مزاحمت اور مقبول لیڈرشپ کی علامت کے طور پر رہیں گے۔ پیپلزپارٹی اب بھٹو کے بجائے بینظیر بھٹو کے ورثے کو مانتی ہے۔ بھٹو دور کے جیالے مر کھپ گئے یا بوڑھے ہوگئے یا حالات نے انہیں لاتعلق بنا دیا۔
بھٹو کی پیپلزپارٹی کا عوامی رنگ تھا۔ ہفتے دس دن میں وہ عوام سے رجوع کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ رنگ پھیکا پڑتا چلا گیا۔ بھٹوکی پارٹی میں جاگیردار کارکنوں اور پارٹی سے ڈرتے تھے۔ اب یہ طبقہ پارٹی کو ڈراتا ہے۔
پیپلز پارٹی اب بھی ملکی سطح پر سیاسی قوت ہے لیکن پالیسیوں سے لگتا ہے وہ اپنی بقا کی ہی جنگ لڑ رہی ہے۔ پارٹی بھٹو کا وہ جادو والا فارمولا تلاش کر رہی  ہے جو مختلف طبقوں کو اس کے ساتھ جوڑ دے، اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکے۔

شیئر: