Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جاپانی کے حج سے شروع ہونے والی دوستی کی کہانی

جاپان نے 1939 میں بااختیار وزیر کو سعودی عرب بھیجا (فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب اور جاپان کے تعلقات کا آغاز جاپان کے ایک شہری یامااوکا کوتارو کے سفرِ حج سے ہوتا ہے جو پہلے جاپانی حاجی تھے جنھوں نے جزیرہ نما عرب کے دورے کی تفصیل ضبطِ تحریر کی۔
کوتارو نے اپنا نام عمر رکھا اور وہ منگولیہ کے زائرین کے ساتھ حج کرنے کے لیے جاپان سے روانہ ہوئے۔ وہ مکہ مکرمہ پہنچنے والے پہلے جاپانی زائر تھے۔

تناکا ایپی جاپان سے سفر کر کے حج کرنے والے دوسرے شخص تھے۔ انھوں نے 1924 اور پھر 1933 میں جزیرہ نما عرب کا دورہ کیا۔
تناکا ایپی ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے جاپان میں اسلامی علوم کی داغ بیل ڈالی۔ انہوں نے 1925 میں اپنے سفر کے بارے میں ایک کتاب بھی شائع کی اور جاپان اور جزیرہ نما عرب کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کی اپنی خواہش کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔ 
ایپی کے دو شاگردوں انوموٹو موموتارو اور تاکیشی سوزوکی نے حج کے دوران ان کا ساتھ دیا۔ دونوں نے بعد میں اپنے سفر کے بارے میں کتابیں لکھیں۔

سوزوکی نے 1934 میں سفرِ حج سے متعلق اپنی کتاب شائع کی۔ شاہ عبدالعزیز پبلک لائبریری نے اسے 1999 میں عربی زبان میں شائع کیا۔
اس کتاب میں شاہ عبدالعزیز اور سوزوکی کی مکہ مکرمہ میں ہونے والی ملاقات کا تذکرہ ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ وہ کیسے شاہ عبدالعزیز کی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہوئے۔
سوزوکی جب شاہ عبدالعزیز سے ملے تو فرطِ احترام سے اتنے مغلوب تھے کہ بادشاہ سے مصافحہ کرتے وقت جذباتی ہو گئے۔ وہ بادشاہ کے ایک طرف کھڑے تھے جبکہ بادشاہ نے باقی مہمانوں سے مصافحہ کیا اور ان مسلمانوں کی تعریف کی جو ایشیا کے دور دراز علاقوں سے حج کرنے آئے تھے۔

سوزوکی نے اپنی کتاب میں لکھا شاہ عبدالعزیز ایک ناقابل تسخیر شخص ہیں اور وہ جہاں بھی گئے فتح ان کے جلو میں رہی۔‘
’اگر ابن سعود دنیا میں نہ آتے تو جزیرہ نما عرب آج تک متحد نہ ہوتا۔ مجھے اب بھی ابن سعود اپنے مضبوط جسم ، با رعب قد و قامت اور طاقتور لب و لہجے کے ساتھ یاد ہیں جو ان کے چہرے سے آشکار رہتا تھا۔"
سوزوکی نے اپنی کتاب میں لکھا کہ سعودی عرب جغرافیائی اور مذہبی اعتبار سے تمام اسلامی ممالک کے لیے کس طرح اہم تھا۔

مصر میں پورٹ سعید میں جاپانی قونصلیٹ کو جزیرہ نما عرب کی صورتِ حال کی نگرانی کا کام سونپا گیا۔دلچسپی اس وقت بڑھی جب شاہ عبدالعزیز مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور انھوں نے مدینہ، جدہ اور حجاز کے صوبے کو سعودی عرب میں شامل کر لیا۔
پورٹ سعید میں جاپانی قونصل خانے نے ٹوکیو میں جاپان کی وزارتِ خارجہ سے شاہ عبدالعزیز کی ملک کو متحد کرنے اور ان کی اصلاحات اور ترقی کی کامیابی کے بارے میں خبروں کے ابلاغ کے لیے رابطہ کیا۔

جاپان کی حکومت نے 1939 میں اپنے ایک مکمل طور پر بااختیار وزیر کو ایک وفد کے ساتھ سعودی عرب بھیجا جس میں اجیرو ناکانو بھی شامل تھے۔ انہوں نے شاہ عبدالعزیز سے ملاقات کی اور ایک معاشی معاہدے پر عملدآمد کے لیے سعودی عرب کے ساتھ مل کر کام کرنے کی پیشکش کی۔ 
اس دورے کا ایک مقصد شاہ عبدالعزیز کو قائل کرنا تھا کہ وہ جدہ میں جاپانی کمیشن کے افتتاح کی اجازت دیں تاکہ سعودی عرب اور جاپان کے تعلقات کومستحکم اور جاپانی زائرین کی سعودی عرب آمد کو آسان بنایا جا سکے۔
 1945 میں جب سعودی عرب نے اعلان کیا کہ وہ جاپان اور جرمنی کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے تو جاپان اور سعودی عرب نے دوستی اور تجارت کے معاہدے پر کام کرنا چھوڑ دیا۔

تاہم سعودی عرب کے مقدس شہر جاپانی مسلمانوں کے لیے کھلے رہے۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جاپان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ایک بار پھر بڑھنے لگے۔ جاپان کی سعودی عرب برآمدات میں اضافہ ہوا اور سعودی عرب میں جاپان کی برآمدات کے لیے لائسنس حاصل کرنے کی جاپانی مشنوں کی تعداد بڑھنے لگی۔
سعودی عرب کی وزارت زراعت کے محکمہ باغبانی کے سربراہ کے ایک خط کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد پہلا جاپانی مشن 1945 میں سعودی عرب پہنچا۔

وزارت خزانہ کے انڈر سیکریٹری ، اسسٹنٹ برائے بزنس ، شہری اور دیہی منصوبوں نے جدہ میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ سعودی عرب کے اعلی سرکاری عہدیداروں ، کاروباری افراد ، ایجنسیوں ، سوداگروں اور سفارت کاروں نے جدہ میں منعقد ہونے والے اس پروگرام شرکت کی۔ اس پروگرام نے جاپان کی سعودی عرب کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں پر نمایاں اثر ڈالا۔
دونوں ممالک کے شاہی خاندانوں کے مابین تعلقات کی گرمجوشی میں بھی سعودی-جاپان تعلقات کی گہرائی کی عکاسی ہوتی ہے۔
جاپان کے ولی عہد شہزادہ اکی ہیٹو نے 1953 میں لندن میں ملکہ الزبتھ دوم کی تاج پوشی کی تقریب کے دوران شہزادہ فہد بن عبد العزیز سے ملاقات کی۔ برطانوی شاہی محل کے پروٹوکول کے مطابق جاپان کے ولی عہد، شہزادہ فہد کے پیچھے بیٹھے تھے تاہم شہزادہ فہد نے اکی ہیٹو کے منصب کے احترام میں ان کے ساتھ اپنی نشست تبدیل کر لی۔
جاپان کے شاہی خاندان نے شہزادہ فہد کے اس اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اس کے اعتراف میں فیصلہ کیا کہ سعودی عرب وہ پہلا ملک ہوگا جہاں جاپانی ولی عہد جائیں گی اور یہ جاپان کے تمام حکمرانوں کے لیے روایت بن گئی۔
سعودی جاپانی سفارتی تعلقات کی کہانی کا آغاز 1957 میں اس وقت ہوا جب توسڈا یوٹاکا کو سعودی عرب میں کمشنر مقرر کیا گیا۔

انہوں نے کہا ’مجھے کچھ عرصہ پہلے ان کی حکومت (شاہ سعود) کا نمائندہ مقرر کیا گیا تھا لیکن مشرقِ وسطیٰ میں حالیہ واقعات نے اس وقت میری آمد میں رکاوٹ پیدا کر دی اور مجھے آپ کے ملک (سعودی عرب) آنے پر بہت خوشی ہوئی ہے جو ترقی کے لیے تیز تر اقدامات کر رہا ہے جس کے بارے میں میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا ’ میں اس موقع پر شاہ سعود کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو جاپان کی حمایت کرنے والے پہلے ممالک میں سے ایک ہیں اور اقوام متحدہ میں جاپان کو بطور رکن ملک قبول کرنے کی بات چیت کے دوران جاپان کو ووٹ دیا۔
سعودی مملکت نے اسی سال جاپان میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کے حوالے سے مزید اقدامات اٹھائے۔ اسعد الفقیح 1957 میں جاپان میں سفیر اور سعودی کمشنر مقرر ہوئے تھے۔
(اس مضمون میں شامل تمام معلومات شاہ عبدالعزیز فاونڈیشن برائے تحقیق و آرکائیوز سے حاصل کی گئی ہیں )

شیئر: