Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پہلا حقیقی امتحان آن پہنچا

خان صاحب کے سامنے، پنجاب حکومت کا آنے والا سیاسی  بحران اکلوتا بحران نہیں، فوٹو: پی ٹی آئی
گذشتہ ہفتے ایک وفاقی وزیر کی جانب سے لائیو ٹیلی وژن پروگرام میں میز پر رکھے گئے فوجی بوٹ نے ملک کے طول و عرض میں ہلچل مچا کے رکھ دی۔ لاکھوں لوگوں نے یہ منظر لائیو دیکھا اور جو ٹیلی وژن سے دور تھے، انہوں نے سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والی تصویروں اور ویڈیو کلپس سےآنکھیں سینکیں۔
میز پر بوٹ لا کر رکھنے والی، ایک شخص کی انفرادی حرکت ۔۔۔ کہیں نہ کہیں لاشعوری طور پر حکومتی صفوں میں پائے جانے والے عدم تحفظ اور اضطراب کو عیاں کر گئی۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم پر’غیر مشروط‘ تعاون کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی گہری، معنی خیز خاموشی کی گونج نے حکومتی حلقوں میں زبردست ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔
یہ ہمارا المیہ ہے کہ پاکستان میں حکومتوں کی زیادہ تر توانائیاں گورننس کے بجائے خصوصی طور پربرپا کیے گئے اندرونی سیاسی بحرانوں سے نمٹنے میں صرف ہو جاتی ہیں، بلکہ حکومت کی بنیادی صلاحیت اور کارکردگی کا تعین  بھی بحران میں ہی سب سے بہتر طے ہوتا ہے۔
اس میڈیائی دور میں، جہاں بحرانوں کو آنے سے روکنا ناممکنات میں سے ہے وہاں تحریک انصاف کا  فارمولا بہت سیدھا اور آسان رہا ہے۔ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں، پہلے دن سے ہی ہر قسم کی سیاسی کرائسس مینجمنٹ انہوں نے آؤٹ سورس کر رکھی ہے۔

وفاقی وزیر کی جانب سے لائیو پروگرام میں بوٹ رکھنے نے ہلچل مچا دی (فوٹو: سوشل میڈیا)

الیکشن کے بعد وفاق میں اپنے نظریاتی مخالفین کے ساتھ حکومت سازی ہو یا پنجاب میں ق لیگ کے ووٹوں سے عثمان بزدار کو منتخب کرانے کا کارنامہ۔۔۔ مولانا فضل الرحمان کا اسلام آباد میں اپنے دھرنے کے ساتھ بیٹھنے کا مرحلہ ہو یا سینیٹ میں نمبر گیم مینج کرنے کا ٹاسک۔۔۔ تحریک انصاف سے زیادہ خوش قسمت حکومت آج تک نہیں دیکھی جہاں ان کی راہ میں موجود کانٹے ہٹانے کے لیے ہر قسم کا مدد اور تعاون موجود رہا ہے جس کے نہ ملنے کا گلہ شہباز شریف کھلےعام اپنی تقریروں میں کرتے رہے ہیں۔
گذشتہ حکومتوں کے برعکس اس حکومت کو صورت حال سے نمٹنے کے لیے صرف علامتی سی تگ و دو کرنا پڑتی ہے، ایک ہومیو پیتھک سی کمیٹی بنتی ہے جو کارروائی کے طور پر کچھ ملاقاتیں کرتی ہے اور اسی دوران کام کہیں اور سے ہو جاتا ہے۔
لیکن اس بار ایسا لگتا ہے کہ کرائسس مینجمنٹ میں تحریک انصاف کا پہلا حقیقی امتحان آن پہنچا ہے۔ یکے بعد دیگرے ایم کیو ایم اور ق لیگ نے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب جب ق لیگ اور ایم کیو ایم یک مشت تیور دکھانے لگیں تو پس پردہ کوئی نہ کوئی اشارہ رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ اگر اپنی کابینہ کے وزیر بھی اتحادیوں کے ہم نوا بن جائیں اور اپنی ہی گورننس پرسوال اٹھانا شروع کر دیں  تو معاملے کی گہرائی کو ماپنا اور ضروری ہو جاتا ہے۔ آؤٹ سورسنگ فی الحال نظر نہیں آ رہی اور لگتا یہی ہے کہ یہ بھاری پتھر حکومت کو خود ہی اٹھانا ہو گا۔

گذشتہ حکومتوں کے برعکس اس حکومت کو صورتحال سے نمٹنے کے لیے صرف علامتی سی تگ و دو کرنا پڑتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اب تک منصوبہ بندی سے لے کر آخری نقطے تک تحریک انصاف کے لیے معاملات مینج ہوتے رہے ہیں مگر اس دفعہ پنجاب کے قلعے پر چومکھی یلغار ہے۔ اگر پنجاب پر پی ٹی آئی کی گرفت قائم رہی تو یہ خان صاحب کی پہلی بڑی کرائسس مینجمنٹ ہو گی جو حکومت کی سمت اور مدت دونوں کا تعین کرے گی۔ البتہ اگر پنجاب میں سمجھوتہ اورحکومت میں مزید شراکت داری کرنا پڑی تو پی ٹی آئی کے پاس حکومت تو شاید رہے مگر بچا کھچا اقتدار بھی ہاتھ سے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
خان صاحب کے سامنے، پنجاب حکومت کا آنے والا سیاسی  بحران ہی اکلوتا بحران نہیں۔ ایک اور بحران شناخت اور بیانیے کا بھی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 2020 بلدیاتی انتخابات کا سال ہے۔ ڈیڑھ سال احتساب کے ایجنڈے پر کام کرنے والی حکومت، تمام اہم سیاسی قیادت جیلوں سے باہر آجانے کے بعد بیانیے کے بحران سے نبرد آزما ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت اپنے سامنے بوٹ رکھ کر اپوزیشن کو شرمندہ تو کرنا چاہتی ہے مگر آخرمیں خود ہی شرمندہ ہو کر رہ جاتی ہے۔
سیاسی اور بیانیے کے بحران کے ساتھ سب سے اہم اور فیصلہ کن معاشی بحران بھی حکومت کے سامنے منہ کھولے کھڑا ہے۔ اب تحریک انصاف کے اپنے لوگوں کے لیے حلقوں میں عوام کا سامنا کرنا آسان نہیں رہا اور انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ حلقے میں ترقیاتی کام نہ ہونے کا سیاسی خمیازہ، مستقبل قریب میں بلدیاتی انتخابات میں تو بھگتنا پڑے گا ہی لیکن کہیں بات اتنی نہ بگڑ جائے کہ عام انتخابات بھی ہاتھ سے نکل جائیں۔

ایم کیو ایم اور ق لیگ نے یکے بعد دیگرے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا (فوٹو: سوشل میڈیا)

خان صاحب نے تمام تر مخالفت اور تنقید کے باوجود، ایک بار پھر اپنا پورا سیاسی وزن، اپنی ٹیم کے ’منصور اختر‘، سردار عثمان بزدار کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ خان صاحب نے اپنے کرکٹ کیریئر میں تو منصور اختر کے لیے سلیکٹرز سے لڑائیاں بھی مول لیں اور جب حسب منشا ٹیم نہ چنی گئی تو سلیکٹرز کو گھر بھی بھجوایا لیکن سیاست میں سلیکٹرز تر نوالہ ثابت نہیں ہوں گے۔
تحریک انصاف شاید اس بات پر ایمان کی حد تک یقین کر بیٹھی ہے کہ اس وقت ملک میں حکومت کرنے کے لیے دور دور تک خان صاحب کا متبادل موجود نہیں ہے اور اسی لیے فیصلہ سازوں کی بھی فی الحال مجبوری ہے کہ وہ انہی کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ چلائیں،  لیکن سیاست میں پرانے سے پرانے کھلاڑی بھی کبھی ریٹائر نہیں ہوتے اور ہر وقت دوبارہ انٹری کے لیے پر تولتے رہتے ہیں۔ بات صرف تیاری یا پریکٹس کی ہے اور وہ تیاری شروع ہو چکی ہے اب جلد ہی اصل اور فیصلہ کن میچ بھی شروع ہونے والا ہے۔

شیئر: