Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جب تک لوگ پسند کریں گے، آئٹم نمبر آتا رہے گا‘

فلموں میں آئٹم نمبر شامل کیے جانے پر مختلف آرا سامنے آتی رہتی ہیں (فوٹو:سوشل میڈیا)
سینیما کا خوابناک ماحول، سامنے سکرین جس پر چلتی فلم میں آپ کے پسندیدہ اداکار آپ کو کسی منظر میں محو رکھے ہوئے ہیں، اچانک تیز موسیقی بجنا شروع ہوتی ہے اور ایک پرکشش خاتون دلربا انداز میں نمودار ہوتی ہیں اور موسیقی پر تھرکنے کے ساتھ گانے کے زومعنی بولوں پر بھرپور ایکشن بھی کرتی نظر آتی ہیں۔
کیا یہ بھی فلم کا ہی حصہ ہے؟ کیونکہ اس میں نہ فلم کی ہیروئن ہے نہ سائیڈ ہیروئین۔ یہ دراصل فلم کا آئٹم نمبر ہے جو واقعی کبھی فلم کا ہی حصہ لگتا ہے اور کبھی اچھی خاصی چلتی کہانی کا مزہ کرکرا کر دیتا ہے۔
پاکستانی فلمی صنعت کے نئے آغاز کے بعد فلموں میں آئٹم نمبر شامل کیے جانے پر مختلف آرا سامنے آتی رہتی ہیں۔ کچھ حلقوں کی جانب سے آئٹم نمبر کی حمایت میں دلائل آئے، کچھ کا خیال تھا کہ یہ ہماری روایت کے خلاف ہے۔
کئی لوگوں کو یہ بھی اعتراض ہے کہ آئٹم نمبر انڈین فلم انڈسٹری بالی وڈ سے مستعار لیا گیا ہے جبکہ انسانی حقوق پر بات کرنے والے بہت سے لوگوں نے آئٹم نمبر کو عورت کی تذلیل کے مترادف قرار دیا۔ لیکن اس بحث میں جانے سے پہلے ہم پاکستانی فلموں میں آئٹم نمبر کی تاریخ پر ایک مختصر سی نظر ڈالتے ہیں۔

اکثر موقعوں پر فلم کی کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے گانوں کا سہارا لیا جاتا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

برصغیر کے سینیما میں گانوں کی ہمیشہ سے ایک اہمیت رہی ہے بلکہ اکثر موقعوں پر فلم کی کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے گانوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اب جہاں موسیقی ہوتی ہے وہاں رقص بھی آجاتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اسی لیے فلموں میں گانوں کے ساتھ رقص بھی شامل ہونے لگا کیونکہ رقص ایک لطیف عمل ہے اس لیے اسے صنف نازک پر ہی زیادہ فلمایا گیا اور یوں فلموں میں خواتین کو رقص کرتے دکھانے کا رواج پڑ گیا۔
پاکستان میں جب سینیما کی ابتدا ہوئی تو اکثر فلموں میں ہیروئنز اپنی ہم جولیوں کے ساتھ رقص کرتی دکھائی دیتی تھیں۔ کبھی کبھار ہیرو بھی کوئی ٹھمکا وغیرہ لگا لیا کرتے تھے۔
60 کی دہائی میں فلم میں رقص کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی اور فلموں میں خواتین جدید طرز کی موسیقی پر جدید طرز کے لباس میں ہیجان خیز مگر دلربا انداز کے ساتھ رقص کرتی نظر آنے لگیں۔
یہ رقص عموماً فلم کی ہیروئن نہیں کرتی تھیں بلکہ یہ کلب یا ڈانس نمبر فلم میں یا تو ’ویمپ کا رول کرنے والی اداکارہ کرتی تھی یا کوئی کلب ڈانسر، اداکارہ حسنہ اس حوالے سے زیادہ جانی جاتی تھیں۔

بلی، قلاباز دل، ٹوٹی فروٹی، مورے سیاں اور نوری جیسے آئٹم نمبرز انتہائی شہرت کے حامل رہے ہیں (فوٹو:سوشل میڈیا)

البتہ 80 کی دہائی میں پاکستانی سینیما کے لاہور منتقل ہو جانے کے بعد یہ رقص زیادہ تر پنجابی اور پشتو فلموں تک محدود ہو گئے اور ان سے دلربائی غائب ہوگئی، صرف ہیجان باقی رہ گیا۔
آج کے دور کی پاکستانی فلموں میں شامل بلی، قلاباز دل، ٹوٹی فروٹی، مورے سیاں اور نوری جیسے آئٹم نمبرز انتہائی شہرت کے حامل رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر گانوں کو انڈسٹری کی معروف ترین اداکاراؤں پر فلمایا گیا ہے۔
90 کی دہائی میں کئی کامیاب فلموں کے خالق پاکستان کے نامور ہدایت کار سید نور نے اردو نیوز کو  بتایا کہ ’جب سے فلم انڈسٹری وجود میں آئی ہے تب سے فلموں میں موسیقی اور رقص شامل کیا جاتا رہا ہے لیکن یہ آئٹم نمبر کی اصطلاح آج ہی سننے میں آئی ہے، ورنہ اس سے قبل فلم میں کسی بولڈ گانے کو ڈانس نمبر یا کلب نمبر کہا جاتا تھا اور ڈسٹری بیوٹرز یا پروڈیوسرز کہانی کے مطابق فلم میں رومانٹک گانوں کے ساتھ ایک یا دو بھڑکیلے گانے بھی ڈلوایا کرتے تھے۔‘
انہوں نے اپنی فلم چوڑیاں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس فلم میں نرگس کا کردار ایک بے باک لڑکی کا تھا اس لیے اس کی محبت کے اظہار کے لیے ایک بولڈ ڈانس نمبر کا سہارا لیا گیا۔  
اب آجاتے ہیں ان لوگوں کی طرف جو فلموں میں آئٹم نمبر شامل کرنے پر مختلف آرا رکھتے ہیں۔

کچھ حلقوں کی جانب سے آئٹم نمبر کی حمایت میں دلائل آئے، کچھ کا خیال تھا کہ یہ ہماری روایت کے خلاف ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

سید نور کا خیال ہے کہ آئٹم نمبر اگر فلم میں کہانی کی ضرورت کے مطابق ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن آج کل کے کئی فلم میکرز اسے ہی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہوئے بے تکے ڈانس اور گانے شامل کر دیتے ہیں جو آرٹ کے نام پر پھکڑپن ہے۔
’اصل میں آئٹم نمبر انڈیا کی تقلید ہے اور ڈانس نمبر کا بگڑا ہوا نام اور شکل ہے۔ اس رقص میں گانوں کے الفاظ اور اسے پیش کرنے کے انداز میں بے ہودگی کا عنصر شامل کردیا گیا ہے اور عورت کے تشخص کو بگاڑ دیا گیا ہے۔
معروف اداکار اور ٹیلی ویژن میزبان حمزہ علی عباسی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’آئٹم نمبر ہماری تہذیب کا حصہ ہی نہیں ہے اور سکرین پر ایک عورت کو چھوٹے کپڑے پہنا کر نچوانا اس کی تذلیل ہے۔ڈسٹری بیوٹرز، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کو فلموں میں آئٹم نمبر شامل کرنے کی ضد نہیں کرنی چاہیے۔‘
 

عائشہ عمر کی پہلی فلم 'کراچی سے لاہور' میں ان کے ڈانس نمبر 'ٹوٹی فروٹی' پر کئی حلقوں نے تنقید کی گئی تھی (فوٹو:سوشل میڈیا)

جامی کا شمار ان ڈائریکٹرز میں ہوتا ہے جن کا خیال ہے کہ فلم صرف انٹرٹینمنٹ ہی نہیں بلکہ آرٹ کی ایک صنف ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ موسیقی اور رقص بھی آرٹ کی اصناف ہیں لیکن انہیں ایک آرٹ کی طرح ہی پیش کرنا چاہیے۔
’آئٹم نمبر کوئی آرٹ نہیں بلکہ سراسر عورت کو بیچنا اور ایک بزنس ہے جس سے پروڈیوسر پیسا کمانا چاہتے ہیں۔‘
پاکستانی فلم انڈسٹری کے نئے جنم میں اہم کردار ادا کرنے والی فلم ’نامعلوم افراد‘ کی پروڈیوسر فضہ علی مرزا کہتی ہیں کہ وہ فلم میں کہانی اور ڈیمانڈ کے مطابق آئٹم نمبر ڈالتی ہیں۔
’ہماری فلموں میں آئٹم نمبر ہمیشہ فلم کی کہانی کے مطابق ہوتا ہے۔ ہم کبھی بھی اس لیے آئٹم نمبر نہیں شامل کرتے کہ اس سے فلم بکتی ہے۔ ہماری دو فلموں ’ایکٹر ان لا‘ ا ور ’لوڈ ویڈنگ‘ میں کوئی آئٹم نمبر شامل نہیں تھا کیوںکہ فلم میں اس کی ضرورت نہیں تھی۔‘
فضہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے جب بھی اپنی فلموں میں آئٹم نمبر شامل کیا، لوگوں نے اس کو پسند کیا ہے اور جب تک عوام اس کو پسند کرتے رہیں گے وہ ایسا کرتی رہیں گی کیونکہ وہ عوام کے لیے فلم بناتی ہیں۔  

انسانی حقوق پر بات کرنے والے بہت سے لوگوں نے آئٹم نمبر کو عورت کی تذلیل کے مترادف قرار دیا (فوٹو: سوشل میڈیا)

فضہ علی کہتی ہیں کہ ’ہمارے یہاں ہر کوئی نقاد بن جاتا ہے اور کسی بھی چیز پر تنقید کرکے اس کو نقصان پہچانے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاں تک بات روایات کی ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں موسیقی اور رقص کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اس کو ہم اپنے سے کیسے جدا کر سکتے ہیں۔‘
معروف اداکارہ عائشہ عمر کی پہلی فلم 'کراچی سے لاہور' میں ان کے ڈانس نمبر 'ٹوٹی فروٹی' پر کئی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی لیکن عائشہ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اگر فلم کے ڈائریکٹر کا خیال ہے کہ آئٹم نمبر ہونا چاہیے تو پھر اسے فلم میں ضرو ہونا چاہیے۔
’باہر سے بیٹھ کر کوئی بھی یہ طے کرنے کا حق نہیں رکھتا کہ فلموں میں یہ ہونا چاہیے اور یہ نہیں، یہ مکمل طور پر فلم بنانے والوں کا فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی فلم میں کیا شامل کرنا چاہتے ہیں۔‘

شیئر: