Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’موسمی‘ بمقابلہ ’نظریاتی‘ گروپ

تحریک انصاف کی حکومت اب دوسرے سال کے اختتام کی طرف گامزن ہے۔ اس کے ساتھ ہی حسب روایت اسی گو مگو کی کیفیت کا آغاز ہو چکا ہے  جس کا سامنا کم و بیش ہر منتخب جمہوری حکومت کو کرنا پڑتا ہے۔
اسلام آباد کے ڈرائنگ رومز میں متبادل نظام، ٹیکنوکریٹ حکومت، قومی حکومت، ان ہاؤس تبدیلی کی اصطلاحات  کا ذکر ہو تو رہا تھا لیکن اب واقفان حال نے معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے بساط میں ردو بدل کی منادی کر دی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر منتخب حکومت کو یہ پڑاؤ عبور کرنا ہوتا ہے اور اس کا سارے کا سارا دارو مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے پتے کیسے کھیلتی ہے۔ سنہ 2019  کےخوب رگڑے کے بعد، حزب اختلاف کے دن پھرنے لگے ہیں اور وہ قدرے بہتر پوزیشن میں آ گئی ہے۔  اور اپنے پتے تو اپوزیشن اور اتحادی  بھی بھینچ کر سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ  ملک کی چار مین سڑیم جماعتیں اس وقت کہاں کھڑی ہیں اور کیا سوچ رہی ہیں۔
آغاز کرتے ہیں تحریک انصاف سے جس کو موجودہ شکل میں اس وقت دو واضح گروپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا گروپ ’نظریاتی‘ ہے جو روز اول سے خان صاحب کے ساتھ ہے۔ دوسرا  گروپ ’موسمی گروپ‘ ہے جو ہر حکومت میں خوشگوار موسموں کے ساتھی ہوتے ہیں اور  درجہ حرارت میں معمولی رد و بدل بھانپ کر اپنی راہ کا تعین کر لیتے ہیں۔ اس گروپ میں بھانت بھانت کی جماعتیں بدلنے والے الیکٹیبلز بھی ہیں اور ڈالی ڈالی پھرنے والے ٹیکنوکریٹس بھی۔
موسمی گروپ پر تو آج تک کوئی جماعت تکیہ نہیں کر سکی اور اس بات کی قوی امید ہے کہ خان صاحب بھی ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ ’نظریاتی‘ گروپ کے لوگوں پر انحصار کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سے آخر کتنے لوگ ایسے ہیں جن کا اپنا سیاسی قد کاٹھ اتنا ہے کہ وہ اقتدار کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا سکیں؟ اسی لیے امورحکومت میں موسمی گروپ نے نظریاتی گروپ کو اہم عہدوں سے تقریبا فارغ ہی کر دیا ہے۔ آنے والے سیاسی چیلنج سے نمٹنے کے لیے نظریاتی گروپ میں صلاحیت اور موسمی گروپ میں نیت کا فقدان ہے۔
کنگز پارٹیز کا ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسی جماعت کے اوپر گرفت قائم رکھنا ایک پیچیدہ کام بن جاتا ہے خاص طور پر جب جماعت کے اندر سے ہی لوگ اگلے کسی سیٹ اپ کے لیے خود کو متبادل کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیں۔ خان صاحب فی الحال خیبر پختونخوا میں پارٹی کی اندرونی شورش کو کچلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے پنجاب میں پارٹی کے اندر اٹھنے والی آوازیں وقتی طور پر سہم کر خاموش ہو گئی ہیں۔ اتحادی تاہم ہر روز ایک بیان داغ دیتے ہیں۔

کالم نویس کے مطابق موسمی گروپ نے نظریاتی گروپ کو اہم عہدوں سے تقریبا فارغ ہی کر دیا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ کتنی دیر تک تسلیوں اور دلاسوں سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ بہرحال خان صاحب بغیر کسی سیاسی تبدیلی کے ہی پانچ سال گزارنا چاہیں گے۔
اگلا ذکر خیر ہو جائے پیپلز پارٹی کا۔۔۔ بلاول بھٹو نے جس دن مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ لگایا اسی دن یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی اب سندھ کی صوبائی حکومت سے آگے نہ سوچنا چاہتی ہے اور نہ ہی کوئی تگ و دو کرنا چاہتی ہے۔ سنہ 2018 کے انتخابات کے بعد سندھ میں پہلے سے مضبوط پوزیشن میں کھڑی پیپلز پارٹی وفاق کی پالیسیوں اور مقتدر حلقوں کی بے اعتنائی پر تشویش کا شکار تو ہے۔ لیکن مڈٹرم الیکشن انہیں کم از کم سوٹ نہیں کرتا، ان کی خواہش زیادہ سے زیادہ وفاق میں چہرے کی تبدیلی تک محدود ہوگی اور وہ ہنسی خوشی کسی بھی ان ہاؤس تبدیلی میں مصالحت کی سیاست کے نام پر شامل ہو جائیں گے۔
ماضی میں ن لیگ کی وفاقی حکومت کے ساتھ  سندھ حکومت کے تعلقات کوئی بہت مثالی نہیں رہے لیکن تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی والی فضا بھی نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ انہیں بھائی چارے کی فضا میسر ہو جس کے نتیجے میں سندھ میں ان کی حکومت بغیر مسئلوں کے چلتی رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقتدر حلقوں سے غیر مشروط تعاون کرنے کے عوض توقع کے مطابق خصوصی رعایات بھی چاہتے ہیں۔

’ پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ انہیں بھائی چارے کی فضا میسر ہو جس کے نتیجے میں سندھ میں ان کی حکومت بغیر مسئلوں کے چلتی رہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ن لیگ کے تذکرہ کے بغیر بساط نامکمل ہے۔ ن لیگ کی خاموشی اس وقت سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہ اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کرنے کے  لیے تقریبا  وہ تمام کمپرمائزز کر چکی ہے جن کا اس سے تقاضا کیا جا رہا تھا۔
پارٹی کی باگیں مریم گروپ سے شہباز گروپ کے ہاتھ میں آ چکی ہے۔ اب یہ گروپ شہباز شریف کی وطن واپس کا منتظر ہے جو تب ہی ہوگی جب شہباز شریف واپسی کے بعد کے منظرنامے میں اپنے کردار کے تمام خدوخال طے کر چکے ہوں گے۔
ن لیگ والے کہتے ہیں کہ مارچ کے وسط تک شہباز شریف واپس آ جائیں گے۔ ن لیگ کو بھی فی الحال وفاقی حکومت سے زیادہ پنجاب میں دلچسپی ہے لیکن وہ مختلف مواقع پر مڈٹرم الیکشن کا تقاضا کر چکی ہیں۔
پنجاب کی طرف البتہ ان کے ارادے مضبوط اور مواقع موزوں ہیں۔ اپنے حامیوں کو انہوں نے امیدیں بھی دلانا شروع کر دی ہیں مگر یہ بات واضح ہے کہ اس بار بھی اگر شہباز گروپ کا داؤ نہ لگا تو اگلے عام انتخابات میں پھر مریم گروپ ہی جماعت کی قیادت کرے گا۔

کالم نگار کا کہنا ہے کہ اس بار بھی اگر شہباز گروپ کا داؤ نہ لگا تو اگلے عام انتخابات میں پھر مریم گروپ ہی جماعت کی قیادت کرے گا (فوٹو: سوشل میڈیا)

ایک اور جماعت جس کے منتخب ارکان کم مگر پوزیشن اہم ہے وہ مسلم لیگ ق ہے ۔ دن بہ دن ان کا لہجہ تلخ اور پی ٹی آئی سے اختلافات بند کمروں سے ٹوئٹر اور ٹی وی تک پہنچ چکے ہیں۔ اگرچہ ن لیگ کی طرف سے ان کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا گیا ہے لیکن یہ بات چوہدری برادران بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی صورت میں ق لیگ کو بہتر ڈیل پی ٹی آئی سے ہی مل سکتی ہے۔ چوہدری شجاعت نے اپنےحالیہ بیان میں شاید اسی لیے فیصلہ سازوں کو چوکنا کرنے کی کوشش کی ہے کہ تاثر جو بھی دیاجائے ۔۔۔ شہباز شریف زیرو ہیں اور ووٹ بینک نواز شریف کا ہی رہا ہے اور رہے گا۔ ق لیگ کی اوولین خواہش اور ترجیح یہی ہوگی کہ حالیہ سیٹ اپ کو ہی ہلکی پھلکی مرمت کے ساتھ چلنے دیا جائے۔
سیاسی جماعتوں کی سوچ اور ترجیحات اگلے چند ماہ کی سیاسی بساط اور اس میں اپنے اپنے کردار کے اردگرد گھوم رہی ہیں مگر وہ عوام جس کے ووٹوں سے یہ جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں ان کی زندگیاں بجلی اور گیس کے چونکا دینے والے بل، کھانے کی اشیا اور دواؤں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے غم میں گھلی جا رہی ہیں۔ جس سیاسی استحکام کی اس وقت ملک کو اشد ضرورت ہے اس کے آثار مستقبل قریب میں نظر نہیں آ رہے۔ معاشی اشاریے بھی کچھ اچھی خبر نہیں دے رہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نہج تک پہنچانے کی ساری ذمہ داری کیا صرف پولیٹکل کلاس کی ہے۔؟
تو اس کا جواب بہرصورت نفی میں ہے!

شیئر: