Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم کس کی زیادہ سنتے ہیں؟

وقت کے ساتھ وفاقی کابینہ میں وزیراعظم کا مشاورتی دائرہ تنگ ہوا ہے، فوٹو: پی ایم آفس
وزیراعظم عمران خان کی 47 رکنی کابینہ کے اندر بھی ایک چھوٹی سی کچن کابینہ ہے جو تعداد میں کم ہونے کے باوجود زیادہ طاقتور ہے، تاہم حکومت کا ڈیڑھ سال مکمل ہونے کے بعد یہ ننھی منی کابینہ  اور بھی چھوٹی ہو چکی ہے اور وزیراعظم کا سیاسی حلقہ مشاورت محدود تر ہو گیا ہے۔
کابینہ ذرائع کے مطابق جب اگست 2018 میں تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو وزیراعظم عمران خان کا حلقہ مشاورت آج کی نسبت خاصا وسیع تھا اور اس میں جہانگیر ترین، نعیم الحق، اسد عمر، زلفی بخاری، مراد سعید اور فواد چوہدری شامل تھے۔
 ان میں سے اکثر کو اہم ترین ذمہ داریوں سے بھی نوازا گیا، تاہم جس طرح ماضی میں باقی رہنماؤں کے ساتھ ہوا اسی طرح حکومت میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کا مشاورت کا دائرہ بھی تنگ ہوتا گیا۔  

 

عمران خان کی کابینہ کے ارکان کے ساتھ پس پردہ بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹے اور چینی کے بحران اور  چند دیگر وجوہات کی بنا پر عمران خان اور جہانگیر ترین کے تعلقات میں گرم جوشی قائم نہیں رہی۔
یاد رہے کہ کئی شوگر ملز کے مالک متمول جہانگیر ترین سال 2011 میں تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بعد سے عمران خان کے بہت قریب آ گئے تھے۔ 2018 کے عام انتخابات کے بعد جہانگیر ترین ہی تھے جو اپنے نجی طیارے پر ملک بھر سے کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی میں شمولیت کے لیے بنی گالہ لے کر آتے تھے۔
ذرائع کے مطابق کابینہ کے رواں سال جنوری میں ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان  آٹے اور چینی کے بحران کے حوالے سے غصے میں نظر آئے اور انہوں نے کھل کر قیمتوں میں مصنوعی اضافے کے ذمہ دار مافیا اور کارٹلز کے خلاف کارروائی کی بات کی۔ گو کہ حال ہی میں جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان ایک ملاقات میں برف پگھلی ہے مگر واقفان حال کہتے ہیں کہ تعلقات کے شیشے میں دراڑ آ چکی ہے۔

عمران خان اور جہانگیر ترین کے تعلقات میں پہلے والی گرم جوشی نہیں رہی، فوٹو: سوشل میڈیا

اسی طرح الیکشنز اور حکومت کے ابتدائی دنوں میں وزیراعظم کے ساتھ ساتھ رہنے والے فواد چوہدری کے ساتھ بھی ان کے فاصلے بڑھ چکے ہیں۔ فواد چوہدری کو نہ صرف وزارت اطلاعات سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں بلکہ مستند قریبی ذرائع کے مطابق وزارت سائنس و ٹیکنالوجی سنبھالنے کے بعد ان کے چند سیاسی بیانات پر بھی وزیراعظم عمران خان نے ناراضی کا اظہار کیا۔ آج کل فواد چوہدری میڈیا کو سیاسی انٹرویوز بھی نہیں دے رہے اور صحافیوں سے کہا جاتا ہے کہ ان سے صرف سائنس پر بات کریں۔
اسی طرح نعیم الحق وزیراعظم کے سیاسی کیریئر کے آغاز سے لے کر حکومت ملنے تک ان کے انتہائی قریب رہے۔ نعیم الحق کی حالیہ شدید علالت نے انہیں بھی وزیراعظم کے قریبی حلقہ مشاورت سے نکال دیا ہے۔

زلفی بخاری اس وقت وزیراعظم کے سب سے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں، فوٹو: پی ایم آفس

ذرائع کے مطابق اس وقت وفاقی کابینہ میں وزیراعظم کے سب سے قریبی اور معتمد ساتھی لندن سے آئے ہوئے ان کے معاون خصوصی برائے سمند پار پاکستانیز زلفی بخاری سمجھے جاتے ہیں۔ زلفی بخاری جب چاہیں وزیراعظم سے ملنے ان کے آفس یا ان کی رہائش گاہ بنی گالہ آ جا سکتے ہیں۔ اس طرح کی رسائی اب کابینہ میں شاید ہی کسی رکن کے پاس ہو۔
کابینہ کے ایک رکن کے مطابق زلفی بخاری کابینہ اجلاسوں میں آج تک نہیں بولے مگر ان کی طاقت کا اندازہ کابینہ کے ہر فرد کو ہے۔ وزیراعظم کی کچن کابینہ میں اب زلفی بخاری اور مراد سعید ہی شمار کیے جاتے ہیں۔
 مراد سعید وزیراعظم کے معتمد ساتھی ہیں اور انہیں بعض اوقات خصوصی ٹاسکس سونپے جاتے ہیں جیسا کہ اپوزیشن کے پی ٹی آئی حکومت پر پارلیمنٹ اور اس سے باہر حملوں کا جواب دینا اور پارٹی کے اندر بھی عمران خان کے فیصلوں کے مطابق کردار ادا کرنا شامل ہے۔

وفاقی وزیر مراد سعید بھی وزیراعظم کے قریبی مشاورتی گروپ میں شامل ہیں، فوٹو: ٹوئٹر

کچن کابینہ ہوتی کیا ہے؟
عمران خان پہلے وزیراعظم نہیں جن کی علیحدہ کچن کابینہ ہے، اس سے قبل پاکستان کے سابق وزرائے اعظم کی بھی بڑی کابینہ میں کچن کابینہ رہی ہے۔ کیمبرج ڈکشنری کے مطابق ’کچن کیبنٹ‘ سے مراد لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروپ ہے جو سیاسی رہنما کو غیر رسمی مشاورت فراہم کرتا ہے۔ 
نوے کی دہائی سے پاکستان کے انگریزی روزنامے دی نیوز کے ساتھ وابستہ صحافی طارق بٹ کے مطابق دنیا بھر کے وزرائے اعظم کی طرح پاکستان میں بھی مختلف سیاسی وزرائے اعظم کی کچن کابینہ رہی ہے جس سے اہم امور پر مشاورت کی جاتی رہی ہے۔
 ان کا کہنا ہے کہ ہر وزیر کی خواہش ہوتی ہے کہ حکومت کا سربراہ اسے اپنی کچن کابینہ کا حصہ بنائے تاہم کچن کابینہ ان افراد کا گروپ ہوتا ہے جن پر وزیراعظم کو سب سے زیادہ اعتماد ہوتا ہے اور تمام اہم فیصلوں سے قبل ان سے رائے لی جاتی ہے اور پھر اس رائے کو کابینہ کے تمام افراد کے ساتھ شیئر کیا جاتا ہے۔

شیخ رشید سابق وزیراعظم نواز شریف کی کچن کابینہ کا حصہ تھے، فوٹو: سوشل میڈیا

بے نظیر بھٹو کی دو ادوار کی کچن کابینہ
جنرل ضیا الحق کے طویل مارشل کے بعد 1988 میں بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں تو ان کی کچن کابینہ ان افراد پر مشتمل تھی جن میں سے کئی بعد میں ان کے سیاسی مخالف بھی بن گئے۔
 صحافی طارق بٹ کے مطابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قریبی مشاورتی گروپ میں ان کے شوہر آصف زرداری، ان کی پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان، ایڈووکیٹ آمنہ پراچہ، آفتاب شیرپاؤ، اعتزاز احسن اور فاروق لغاری شامل تھے، تاہم ان کی پہلی حکومت صرف 20 ماہ ہی چل سکی اور 1990 میں صدر غلام اسحاق خان نے اس وقت آئین کی شق 58 ٹو بی کے تحت کرپشن کے الزامات پر ان کی حکومت برطرف کر دی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو 1993 میں دوبارہ وزیراعظم بنیں تو ان کی کچن کابینہ بدل چکی تھی۔ وقت نے یہ بھی دیکھا کہ اپنی کچن کابینہ کے ایک رکن فاروق لغاری کو جب انہوں نے اپنے دوسرے دور حکومت میں صدر بنایا تو فاروق لغاری نے ہی 1996 میں  58 ٹو بی کے تحت ان کی حکومت برطرف کر دی۔

نواز شریف کے پہلے دو ادوار میں چوہدری نثار کچن کابینہ میں شامل تھے، فوٹو: سوشل میڈیا

 بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں بھی اعتزاز احسن، آصف زرداری اور ناہید خان ان کی کچن کابینہ کا حصہ تھے تاہم دوسرے دور میں میجر جنرل (ریٹائرڈ) نصیر اللہ بابر  اور رضا ربانی بھی ان کی کچن کابینہ کا حصہ بن گئے تھے۔
نواز شریف کے تین ادوار کی کچن کابینہ
میاں نواز شریف پاکستان کے واحد سیاست دان ہیں جنہیں تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔  ان کی پہلی حکومت 1990 سے 1993 تک قائم رہی۔ اس دوران ان کی کچن کابینہ میں آج کے وزیر ریلویز شیخ رشید بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ چوہدری نثار ، اسحاق ڈار اور اعجاز الحق بھی ان کی کچن کابینہ کا حصہ تھے۔

بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھی فاروق لغاری نے ان کی حکومت برطرف کی، فوٹو: اے ایف پی

نواز شریف کی حکومت کو بھی 58 ٹو بی کے تحت ہی 1993 میں صدر غلام اسحق خان نے برطرف کر دیا تھا۔ ان کے 1997 سے 1999  تک دوسرے دور حکومت میں بھی چوہدری نثار اور اسحاق ڈار ان کی کچن کابینہ کا حصہ تھے تاہم خواجہ آصف، احسن اقبال،شاہد خاقان عباسی اور سینیٹر سیف الرحمان بھی اس دور میں ان کی کچن کابینہ کا حصہ بن گئے تھے۔
نواز شریف کی حکومت کا 12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں فوج نے تختہ الٹ دیا تھا، تاہم قسمت کی دیوی 2013 میں ان پر پھر مہربان ہوئی اور وہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے۔ اس دور میں ان کی کچن کابینہ میں خواجہ آصف، اسحاق ڈار، پرویز رشید، احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی شامل تھے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: