Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں تین سال بعد پہلا چائلڈ پروٹیکشن یونٹ قائم

 چائلڈ پروٹیکشن یونٹ نے ٹیلیفون ہیلپ لائن بھی قائم کردی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
کوئٹہ میں بلوچستان کا پہلا چائلڈ پروٹیکشن یونٹ قائم کر دیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ تشدد اور زیادتی کا سامنا کرنے والے بچوں کو قانونی و سماجی تحفظ فراہم کرے گا۔ 
بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں ہر سال ہزاروں بچے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں جبکہ بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات بھی سینکڑوں کی تعداد میں رپورٹ ہوتے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم ساحل کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں اوسطاً ہر روز نو بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔  
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو یا یونٹس کام کر رہے ہیں۔
تاہم بلوچستان میں نومبر 2016 میں قانون منظور ہونے کے باوجود سرکاری طور پر ایسا کوئی ادارہ قائم نہیں تھا جو تشدد کا سامنا کرنے والے بچوں کو پناہ کے ساتھ ساتھ قانونی اور طبی معاونت فراہم کرسکے۔
بلوچستان کے وزیر برائے سماجی بہبود اسد بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2016 پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ اس قانون کے منظور ہونے کے تقریباً تین سال بعد صوبے کا پہلا چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کوئٹہ میں قائم کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صوبے کو مالی وسائل کی کمی کا سامنا ہے مگر موجودہ صوبائی حکومت بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سنجیدہ ہے۔ ہم کوئٹہ کے بعد دوسرے مرحلے میں ڈویژنل سطح پر چھ مزید ایسے یونٹس قائم کریں گے۔ تیسرے مرحلے میں تمام اضلاع میں یونٹ قائم کرکے بچوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ 
اسد بلوچ کا کہنا ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے نفاذ اور یونٹ کے قیام کا مقصد ان بچوں کوانصاف دلانا ہے جو جنسی و جسمانی استحصال اور ظلم و جبر کے شکار ہیں۔ ایسے بچوں کو تحفظ اور انصاف فراہم نہ کیا تو وہ معاشرتی نا ہمواریوں اور زیادتیوں کا شکار ہوکر منفی اورجرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں استعمال ہوں گے اور پھر بڑے ہوکر اس معاشرے سے انتقام لیں گے۔ 

بلوچستان میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کے لیے کئی برسوں سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ فوٹو: فیس بک

کوئٹہ کے پٹیل روڈ پر قائم کئے گئے چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ابو الحسن نے اردو نیوز کو بتایا کہ چائلڈ پروٹیکشن یونٹ نے منگل سے باقاعدہ کام شروع کر دیا ہے۔ اس سے پہلے اس یونٹ کو دو ماہ سے آزمائشی طور پر چلایا جا رہا تھا۔
’آزمائشی کام کے دوران ہمارے پاس بارہ کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے زیادہ تر کیسز بچوں پر جنسی تشدد اور زیادتیوں کے حوالے سے تھے۔‘
ان کے بقول متاثرہ بچوں میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل تھیں اور ان کی اوسطاً عمریں آٹھ سے نو سال تھیں۔ اس کے علاوہ والدین کی جانب سے گھریلو تشدد کا ایک کیس بھی رپورٹ ہوا ہے۔ 
ابوالحسن کے مطابق چائلڈ پروٹیکشن یونٹ جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کا سامنا کرنے والے بچوں کے کیسز رپورٹ ہونے کے بعد تعلیم، صحت، لیبر اور پولیس کے محکموں کے ساتھ مل کرمتاثرہ بچوں کو خدمات فراہم کرے گا۔ زیادتی اور تشدد کے شکار بچوں کو قانونی و سماجی تحفظ دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کرب سے گزرنے والے ایسے بچوں کی نفسیاتی ماہرین کی مدد سے بحالی کی جائے گی تاکہ وہ دوبارہ عام زندگی کی طرف لوٹ سکیں۔ 
ان کا کہنا تھا کہ چائلڈ پروٹیکشن یونٹ نہ صرف متاثرہ بچوں کی مدد کرے گا بلکہ بچوں پر تشدد اور زیادتیوں کی روک تھام کے لیے بھی شعوری و آگاہی مہم چلائے گا اس سلسلے میں والدین کی کونسلنگ کی جائے گی۔ سکولوں اور کالجوں کی سطح پر کام کیا جائے گا۔ 
انہوں نے بتایا کہ بعض بچے گھروں میں اپنے والدین یا رشتہ داروں کے ہاتھوں بد ترین جسمانی اور ذہنی تشدد کا سامنا کرتے ہیں ہم ایسے بچوں کی بھی مدد کر رہے ہیں۔
’ان حالات میں جب بچے گھر سے بھاگ جاتے ہیں پھر ہم انہیں خاندان سے الگ کرکے عارضی پناہ فراہم کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں متاثرہ بچے کی ری ہیبلیٹیشن کی جاتی ہے اور ان کے خاندان کے افراد کی بھی کونسلنگ کرتے ہیں تاکہ وہ آئندہ بچوں کے ساتھ بد سلوکی نہ کریں۔‘

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کے مطابق پاکستان میں بچوں سے زیادتی کی کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ (فوٹو:اے ایف پی)

ابوالحسن نے کہا کہ سکولوں میں طالب علموں پر تشدد کرنے والے اساتذہ کے خلاف چائلڈ پروٹیکشن یونٹ شکایات وصول کرے گا۔ ہوٹلوں، گاڑیوں کی ورکشاپس سمیت کام کی جگہوں پر بچوں پر تشدد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ 
ابو الحسن کے مطابق اس وقت لوگوں کو معلوم نہیں کہ جسمانی تشدد و جنسی ہراسانی کا سامنا کرنے والے بچوں کے لیے کوئی مرکز قائم ہوا ہے اس لیے ہم خود لوگوں کے پاس جا رہے ہیں۔
 چائلڈ پروٹیکشن یونٹ نے ٹیلیفون ہیلپ لائن بھی قائم کردی ہے۔ فی الحال یہ دفتری اوقات میں کام کر رہا ہے۔ بعد میں اسے24 گھنٹے فعال رکھا جائے گا۔ 
چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے تعاون سے قائم اس مرکز میں ایک انتظامی افسر کے علاوہ دو مرد و خواتین چائلڈ پروٹیکشن آفیسرز، ایک انفارمیشن مینجمنٹ آفیسر اور خواتین و مرد سوشل ورکرز تعینات کیے گئے ہیں۔ انہیں یونیسف نے تربیت فراہم کی ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن یونٹ میں ڈاکٹر، ماہر نفسیات، نرس اور خاتون پولیس افسر بھی خدمات سرانجام دیں گے۔ 
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: