Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امن کی کوششیں: پاکستان،انڈیا نے ہار مان لی؟

پلوامہ حملے کے بعد دو ایٹمی قوتیں جنگ کے دہانے پر آگئی تھیں۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان اور اںڈیا کے درمیان کشمیر پر تنارع کو 70 سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن گذشتہ سال 14 فروری کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والے حملے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات نے ایک نیا موڑ لے لیا جس کے بعد آگے بڑھنے کے لیے دونوں اطراف سے کوئی پیش رفت نہیں نظر آرہی۔
14 فروری کو پلوامہ میں انڈیا کی سکیورٹی فورسز پر حملے کا ذمہ دار انڈیا کی جانب سے پاکستان کو ٹھہرایا گیا تھا۔
اس کے بعد انڈیا نے جوابی کارروائی کے طور پر پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بالاکوٹ پر حملہ کیا تھا، جس کے بعد صرف سفارتی سطح پر ہی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان محاذ جنگ کھل گیا تھا اور دونوں اطراف کے عوام میں بھی غصہ دیکھنے میں آیا تھا۔ 
پاکستان نے جواباً انڈین طیارے کو گرایا تھا جس کے بعد انڈین پائلٹ بھی پاکستان کی تحویل میں آ گیا تھا۔
ان واقعات کے بعد جنگ کے خدشات تاریخ کی شدید ترین سطح پر پہنچ گئے تھے مگر دونوں اطراف سے کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے جس سے خطے میں جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔
پلوامہ اور بالاکوٹ واقعہ کے بعد جنگ کا خطرہ تو ٹل گیا مگر دونوں ممالک کے درمیان حالات بہتری کی طرف نہیں بڑھے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ’دی انڈین ایکسپریس‘ کی نیشنل ایڈیٹر نیروپما سوبرامنین کا کہنا تھا کہ پلوامہ اور اس کے بعد بالاکوٹ واقع کے بعد انڈیا اور پاکستان کے تعلقات کافی خراب ہوئے ہیں۔ ’اس کے بعد انڈیا نے کشمیر میں اگست میں جو کیا، ان تین واقعات کی وجہ سے انڈیا اور پاکستان کے تعلقات آج اس موڑ پر پہنچ گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پلوامہ حملے میں انڈیا کے نیم فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے، جن کا تعلق انڈیا کے مختلف علاقوں سے تھا۔ ’اسی وجہ سے انڈیا میں لوگوں کے لیے یہ ایک جھٹکا تھا۔

صرف سفارتی اور صدارتی سطح پر ہی نہیں بلکہ عوام میں بھی غصے کی لہر دوڑ گئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

نیوروپما سوبرامنین نے بتایا کے حکومتی سطح پر اس بارے میں کیا خیالات پائے جاتے ہیں، اس بات کا انہیں زیادہ علم نہیں۔ ’لیکن (پاکستان میں) دوستوں سے بات کر کے مجھے ایک تاثر ملا ہے کہ پاکستان میں (حملے کے بعد) اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بالی وڈ نہیں چاہیے، ہمیں آپ کی مدد نہیں چاہیے۔
انڈیا سے کشیدگی کے باعث پاکستان بھر میں انڈین فلموں کی نمائش پر پابندی ہے اور ٹی وی چینلز پر بھی انڈین مواد نہیں دکھایا جا رہا۔ اسی طرح بالی وڈ میں بھی پاکستانی اداکاروں کے کام کرنے پر پابندی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان سب کے درمیان کو ایک خوش آئند پیش رفت ہوئی وہ کرتارپور راہداری کا افتتاح تھا۔
پریس سے جو میں اندازہ لگا سکتی ہوں وہ یہ ہے کہ تعلقات میں بہت بڑا خلا ہے۔‘
ان کا ماننا ہے کہ جب تک دونوں ممالک بیٹھ کر بات چیت کرنے پر راضی نہیں ہوتے، تعلقات بہتر ہونے میں بہت وقت لگ سکتا ہے۔

پاکستان کے جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ بالاکوٹ حملے کے بعد کس کا دل گردہ ہوگا کہ مذاکرات کرے (فوٹو: اے ایف پی)

اس واقع اور انڈیا کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں پاکستان کے جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جہاں تک پلوامہ کا قصہ ہے پاکستان نے واضح طور پر کہا تھا کہ یہ ہم نے نہیں کیا۔ جس دن یہ حملہ ہوا، انڈیا نے شام تک ہم پر الزام بھی لگا دیا اور بین الاقوامی کمیونٹی میں بھی کہہ دیا کہ پاکستان دہشت گردی کرواتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد بالاکوٹ میں حملہ کیا گیا، جو کہ پاکستان کی خود مختاری پر حملہ تھا۔ ’ہمارا بارڈر 1971 کے بعد پہلی بار کراس کیا گیا۔‘
انڈین ائیر فورس کے پائلٹ ابھینندن جو بالاکوٹ واقع کے بعد پاکستان میں پکڑے گئے تھے ان کے بارے میں جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب کا کہنا تھا کہ ’انہیں واپس بھیج کر پاکستان نے خوش سگالی کا جذبہ دیکھایا، کہ ہم پڑوسی ممالک ہیں، لیکن انڈیا نے اس کے نتیجے میں کچھ نہیں کیا۔ بلکہ ان سے بڑھ کر کشمیر میں کارروائی کرنا شروع کر دی، یک طرفہ ایکشن لینا شروع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد کس کا اتنا دل گردہ ہوگا کہ بات چیت کریں۔
پلوامہ حملے کے بعد ورلڈ کپ میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان انگلینڈ میں میچ کے حوالے سے بھی انڈین کرکٹ بورڈ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ نہیں کھیلیں گے۔

پلوامہ حملے میں انڈیا کے نیم فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے (فوٹو: روئٹرز)

اس بارے میں جنرل (ریٹائرڈ) امجد شیعب کا کہنا تھا کہ انڈیا کی جانب سے ایسے بیان نہیں آنے چاہئیں تھے۔
انڈیا پاکستان کو سفارتی طور پر الگ کرنا چاہتا ہے اور دہشت گردی وہ واحد بات ہے جس کا الزام لگا کر پاکستان کو الگ کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے تعلقات سے متعلق انڈین آرمی کے سابق نائب چیف لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) راج کدیان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کا اب بھی یہ موقف ہے کہ آپ دہشت گردی روکیں اور ہمارے پاس آئیں۔ مجھے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے بہتر ہونے کی خوشی ہوگی۔ میں 2010 میں کچھ دنوں کے لیے لاہور میں تھا۔ ہماری زبان اور ثقافت میں مماثلت ہیں۔ اگر ہم دونوں مل کر رہیں تو ہم میں بے حد صلاحیت ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ انڈیا میں اگر پاکستان سے مذاکرات کے لیے رضامندی ہے تو انتخابات کے دوران پاکستان مخالف تاثرات کیوں دیکھنے میں آئے؟ اس پر جنرل (ریٹائرڈ) راج کدیان نے اعتراف کیا کہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے انڈیا میں سیاسی جماعتوں نے پلوامہ حملے کا استعمال کیا۔ ’پاکستان بھی ایسے کسی موقعے کا ضرور فائدہ اٹھاتا۔
انڈیا کی جانب سے 5 اگست کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے اقدام پر انہوں نے بتایا کہ آرٹیکل 370 کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے لیے ویسے ہی ختم ہونا تھا کیونکہ یہ عارضی طور پر لگایا گیا تھا۔
اس پر انڈیا میں 2014 میں حکمران جماعت نے بھی کہا تھا کہ آرٹیکل 370 کو کشمیر کے لیے ختم کردیا جائے گا۔ اس کا 2019 میں ہونے والی کشیدگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

شیئر: