Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مجوزہ بل صحافیوں کو تحفظ دے سکے گا؟

مجوزہ سات رکنی کمیشن کے سربراہ سپریم کورٹ کے سابق جج ہوں گے (فوٹو: گیٹی امیجز)
پاکستان میں وفاقی کابینہ نے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بل کے مسودے کی منظوری دے دی ہے۔ صحافیوں کو تحفظ کے بل کو ’پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2019’ کا نام دیا گیا ہے۔
منگل کو وفاقی کابینہ سے منظور ہونے والے بل کے مسودے کے تحت وفاقی حکومت صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سات رکنی کمیشن قائم کرے گی جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے سابق جج ہوں گے۔
کمیشن میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے چاروں صوبوں سے ایک ایک نامزد نمائندہ، نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی جانب سے نامزد کردہ ایک نمائندہ اور وزارت انسانی حقوق کا ایک نمائندہ شامل ہوگا۔
اس کے علاوہ کمیشن صحافت کے شعبے میں تجربہ رکھنے والی کسی بھی شخصیت کی خدمات حاصل کر سکتا ہے۔

 

بل کے مسودے کے مطابق صحافیوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی اور قومی سلامتی قوانین کو ان کے تحفظ کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ حکومت صحافیوں کی جبری کمشدگی اور اغوا سے بچاؤ کے لیے اقدامات بھی کرے گی۔
بل کے مسودے کے مطابق صحافیوں پر خبر کے ذرائع ظاہر کرنے کے لیے کسی قسم کے دباؤ نہیں ڈالا جائے گا اور حکومت صحافیوں کو اپنے ذرائع خفیہ رکھنے کے لیے تحفظ فراہم کرے گی۔ کسی صحافی کو پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔
مجوزہ قانون کے تحت صحافی کسی ایسے مواد کو نہیں پھیلائے گا جو جھوٹا اور حقائق کے منافی ہو۔
کمیشن کے قیام سے حکومت صحافی کو کسی بھی ادارے، شخص یا اتھارٹی کی طرف سے کردار کشی، تشدد یا استحصال سے تحفظ دے گی۔
کسی بھی شخص، ادارے یا اتھارٹی کی جانب سے کردار کشی، تشدد یا استحصال کی صورت میں صحافی کمیشن کو 14 روز کے اندر شکایت کر سکے گا اور کمیشن 14 روز کے اندر ہی شکایت کی تحقیقات کر کے قانونی کارروائی کرے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت صحافی ایسے مواد کو نہیں پھیلائے گا جو جھوٹا ہو (فوٹو: سوشل میڈیا)

وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد بل کی پارلیمنٹ سے منظوری لی جائے گی۔

’صحافیوں کو تحفط دینے کا قانون لفظوں کا ہیر پھیر ہے۔‘

سابق چیئرمین پیمرا اور سینیئر صحافی ابصار عالم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئین کا آرٹیکل 9 انسانی جان کے تحفظ کو پہلے ہی یقینی بناتا ہے اور اسے ہی اس نئے بل کا حصہ بنایا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ صرف لیپا پوتی ہے۔ صحافت کو اصل خطرہ ریاستی اداروں سے ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ان اداروں کی نیت ٹھیک ہو اور وہ قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔‘
ابصار عالم نے کہا کہ ’مجوزہ ایکٹ کے تحت صحافیوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات قائم کرنے پر انہیں تحفظ فراہم کیا گیا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ پاکستان کے کسی بھی شہری کے خلاف دہشت گردی کے ناجائز مقدمات نہیں بنانے چاہئیں۔‘

سینیئر صحافیوں کے مطابق بل میں صحافی کو ملازمت کا تحفط نہیں دیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس قانون میں صحافیوں کو ملازمت اور بروقت تنخواہ کی ادائیگی کے حوالے سے کوئی تحفط فراہم نہیں کیا گیا۔‘
سابق چیئرمین پیمرا نے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کمیشن کے قیام کو مثبت اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس کمیشن کو مکمل طور پر آزاد اور بااختیار بنانا پڑے گا۔دیگر ریگولیٹری اتھارٹیز کی طرح اگر اس کمیشن کو بھی آزاد نہ بنایا گیا تو یہ بھی ایک مذاق بن کر رہ جائے گا۔‘
سینیئر صحافی ایم ضیاالدین نے صحافیوں کو تحفط فراہم کرنے کے قانون کو اچھا اقدام قرار دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اس ملک میں پہلے بھی بہت قوانین رائج ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اصل مسئلہ قانون پر عمل کرنے والوں میں صلاحیت کا نہ ہونا ہے، اور اگر اصل حکمرانوں کے ذہن میں یہ بات آجائے کہ آئین ملکی سلامتی سے متصادم ہے تو وہ آئین کو بھی نہیں مانتے تو ایسے میں قانون کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔‘

شیئر: