Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کورونا کے لیے دنیا کو ہر محاذ پر ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے‘

اجلاس میں جی 20 ممالک کے سربراہان کے علاوہ عالمی ادارہ برائے صحت، اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے نمائندے بھی شریک تھے: فوٹو عرب نیوز
خادمِ حرمینِ شریفین شاہ سلمان نے ریاض میں جی ٹوئنٹی کی غیر معمولی سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے دنیا کو ہر محاذ پر ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
شاہ سلمان دنیا کی بڑی معیشتوں جنھیں جی ٹوئنٹی کے نام سے جانا جاتا ہے کے غیر معمولی اجلاس کی سربراہی کر رہے ہیں۔
 شاہ سلمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ کورونا عالمی سطح پر معاشی ترقی اور شرحِ نمو کی راہ میں مزاحم ہوگیا ہے۔ ’جی ٹوئنٹی ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ کورونا کے خلاف برسرِ پیکار ترقی پذیر ممالک کی مدد کریں۔‘
سعودی رہنما نے کہا کہ اشیا اور خدمات میں رکاوٹوں کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے اور کورونا کی وبا سے لڑنے کے لیے ایک متحدہ جواب ضروری ہے۔
شاہ سلمان نے کہا ’کورونا کے خلاف جنگ میں ہم عالمی ادارہِ صحت کے شانہ بشانہ ہیں اور اس سلسلے میں ویکسین کی تیاری میں سعودی عرب تعاون کرے گا۔‘
انھوں نے کورنا سے متاثر مریضوں کی جلد صحییابی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور جن ممالک میں لوگ کورورنا سے لڑتے لڑتے جان ہار گئے ان کے ساتھ تعزیت کی۔

سعودی عرب نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے موثر اقدمات کیے گئے ہیں: فوٹو اے ایف پی

شاہ سلمان نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا ’ ہمیں وبائی اور متعدی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر فریم ورک کو مستحکم اور مضبوط بنانا ہو گا تاکہ مستقبل کو اس قسم کی وبائی امراض سے محفوظ بنایا جاسکے۔
شاہ سلمان نے مزید کہا ’موجودہ حالات میں ہمیں مل کر اس کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ہی عالمی معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے باہمی اعتماد کو قائم رکھتے ہوئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ جی 20 کے لیے لازمی ہے کہ عالمی معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے مشترکہ طور پرقوی اور مضبوط لائحہ عمل مرتب کر کے کام کا آغاز کیا جائے تاکہ عالمی معیشت کے استحکام کےلیے اعتماد کی فضا بحال ہو۔‘
اس کانفرنس کو سماجی فاصلے کے اصول کے پیشِ نظر ورچوئل طور پر معنقد کیا گیا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک سے تمام مندوبین نے اس کانفرنس میں ڈائل کر کے شرکت کی ہے۔
ورچوئل اجلاس کا مقصد کورونا کی وبا کی روک تھام کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنا ہے۔ اس وبا کے باعث اربوں لوگ لاک ڈاؤن کی صورتِ حال میں ہیں۔ کورونا کی وجہ سے اب تک اکیس ہزار افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور عالمی معشتیں بدترین حالات سے دو چار ہیں۔
 اجلاس میں جی 20 ممالک کے سربراہان کے علاوہ عالمی ادارہ برائے صحت، اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے نمائندے بھی شریک ہیں۔
جی 20 ممالک کے آن لائن اجلاس سے پہلے سعودی فرمانروا نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ جی 20 ممالک کا اجلاس کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں کو متحد کرے گا۔   
شاہ سلمان نے یہ بھی لکھا کہ 'خدا انسانیت کو ہر طرح کے نقصان سے بچائے۔'
 
جی 20 ممالک کا اجلاس یوں تو سال میں ایک مرتبہ منعقد ہوتا ہے لیکن سنہ 2009 اور 2010 میں عالمی معاشی بحران کے دوران اس کے دو اجلاس منعقد ہوئے تھے۔

اجلاس میں جی20 ممالک کے علاوہ دیگر ممالک کے نمائندے بھی شرکت کریں گے (فوٹو: روئٹرز)

جی 20 کا سالانہ اجلاس سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں نومبر میں منعقد ہوگا لیکن کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اجلاس آج جمعرات کو بلایا گیا۔
جی 20 صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کا گروپ ہے جس میں یورپی یونین سمیت 19 ممالک شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اجلاس میں اردن، سپین، سنگاپور اور سوئٹزرلینڈ بھی حصہ لیں گے جبکہ متحدہ عرب امارات خلیجی تعاون کونسل کی نمائندگی کرے گا۔
صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک اب تک تقریباً 4.5 کھرب ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔ حال ہی میں امریکی ایوان نمائندگان نے دو کھرب ڈالر کے امدادی فنڈ کی منظوری دی ہے جو کورونا سے بچاؤ اور پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اب تک کی سب سے بڑی مالی معاونت ہے۔

شیئر: