Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیویارک میں مریضوں کے’ ٹپکتے آنسوؤں اور آہوں کی آوازیں'

ڈاکٹر ڈوبے کا کہنا ہے کہ یہ بہت افراتفری والی صورت حال ہے۔ فائل فوٹو
نیویارک شہر میں ایک ایمرجنسی میڈیسن فزیشن کے طور پر کام کرنے والی ڈاکٹر کامنی ڈوبے کو شروع سے معلوم تھا کہ طبی امداد کی فراہمی کے دوران موت ہو جانا معمول کی بات ہے لیکن جیسا اب کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد ہو رہا ہے ایسا انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
کورونا سے متاثرہ مریض اکیلے وینٹی لیٹرز پر سانس لینے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ مرض کے پھیلاؤ کے پیش نظر کسی کو بھی ان کے ساتھ آنے کی اجازت نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ڈاکٹر ڈوبے کا کہنا ہے کہ ’اکثر کسی مریض کی سانسیں اکھڑ رہی ہوتیں اور وہ اکیلا مر رہا ہوتا۔ میرے لیے یہ بہت تکلیف دہ تھا جب آئی سی یو سے ان کے گھر والوں کو فون کر کے بتاتی اور وہ فون پر اپنے پیارے کو آوازیں دیتے۔ میں ان کے ٹپکتے آنسوؤں اور آہوں کی آواز سنتی۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'بہت سے مریضوں کو اکیلے میں اس طرح مرتے دیکھا کہ ان کے اردگرد خاندان کا کوئی فرد موجود نہیں تھا۔ یہ بہت خوفناک ہے میرے لیے۔'
تین سال سے شہر میں رہنے والی ڈاکٹر ڈوبے نیویارک یونیورسٹی لینگون میڈیکل سنٹر اینڈ بیلویو ہسپتال میں کام کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹرز اور دوسرے میڈیکل سٹاف کے ہمراہ وہ شہر سے آنے والے بیماروں اور مرتے ہوئے مریضوں علاج کر رہی ہیں۔
اس قسم کی صورت حال اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی یہ بہت بھاری اور افراتفری والی صورت حال ہے۔

ڈاکٹر دوبے شہر سے آنے والے بیماروں اور مرتے ہوئے مریضوں علاج کر رہی ہیں۔ فائل ٖفوٹو: اے ایف پی

انہوں نے مزید بتایا کہ 'میں نے پوری زندگی میں کبھی اپنے اعصاب اور جسم پر اتنا دباؤ محسوس نہیں کیا، میں کبھی زندگی میں اتنا پریشان نہیں ہوئی۔
جب زیادہ تر مریضوں میں کورونا کی علامات ظاہر ہوتی ہیں تو ان پر کچھ دوسرے عارضے بھی حملہ آور ہوتے ہیں جن میں نمونیہ بھی شامل ہے۔ 
شہر کے ہسپتال پر بڑھتے مریضوں کے دباؤ کے پیش نظر ڈاکٹر ڈوبے جیسے طبی سہولتیں فراہم کرنے والے دوسرے ورکرز بھی اپنی صحت کے حوالے سے پریشان ہیں اور حکومت سے تمام ضروری حفاظتی آلات فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ہم اس فیلڈ میں یہ سوچ کر نہیں آئے کہ ہم شہید ہونے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا ’ہم ایک سنجیدہ بحرانی کیفیت میں ہیں اور اس کا تقاضا ہے کہ ہم پوری طرح سے محفوظ ہوں۔ ہم میدان جنگ میں نہیں ہیں۔'
وہ اس صورت حال سے بھی پریشان ہیں جس کا ڈاکٹرز کو محدود چوائسز کے ساتھ سامنا ہے جیسا کہ اگر مریضوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو کس مریض کو کون سی امداد دی جائے گی۔ اور آیا ان کے پاس اتنے مریضوں کو طبی امداد فراہم کرنے کے آلات موجود بھی ہیں؟ جیسے وینٹی لیٹرز، کس مریض کو وینٹی لیٹر کی ضرورت ہو گی اور کسی کو نہیں، کس کو پہلے اس پر منتقل کیا جائے۔ ایسی ہی صورت حال دوسرے سامان کے حوالے سے بھی ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر دوبے کا کہنا ہے ہم آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔' فائل فوٹو

یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں رات کو ڈیوٹی سے گھر جا کر بھی سوچتی رہتی ہوں۔'
انہیں امید ہے کہ عوام ماہرین کی باتوں پر کان دھریں گے اور وہ سب کچھ کریں گے جس کی بدولت وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ اس میں خودساختہ قرنطینہ اور دوسرے اقدامات شامل ہیں۔
کسی کو مرتے ہوئے دیکھنا یقیناً بہت تکلیف دہ ہے۔ تکلیف دہ یہ بھی ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ مستقبل اپنے ساتھ کیا لا رہا ہے۔
ہم آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔'
ڈاکٹر ڈوبے نے امید ظاہر کی کہ 'ہم یکجہتی کے ذریعے ایک دوسرے کا تحفظ کر سکتے ہیں۔'

شیئر: