Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریضوں کے لیے صرف سرکاری ہسپتال کیوں؟

پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد 1600 سے تجاوز کر گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں کوئی امیر ہے یا غریب  اگر اسے کورونا ہو جائے اور ہسپتال جانے کی ضرورت پڑے تو فی الحال اسے کم سہولیات اور ہجوم والے سرکاری ہسپتالوں میں ہی جانا ہوگا کیونکہ اسلام آباد، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور اب کراچی میں بھی کوئی بڑا پرائیویٹ ہسپتال کورونا کے مریضوں کو ادائیگی پر بھی علاج فراہم نہیں کر رہا۔
پاکستان میں زیادہ تر لوگ کسی مرض کے لگنے سے زیادہ اس بات سے خوف کھاتے ہیں کہ انہیں سرکاری ہسپتال میں داخل ہونا پڑے کیونکہ اکثر سرکاری ہسپتال  گندگی، ناکافی سہولیات اور رش کی وجہ سے  ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر  پاکستان کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں انتظامیہ نے بتایا کہ کورونا کے حوالے سے پیچیدگی پیدا ہونے پر مریضوں کو سرکاری ہسپتال کے آئسولیشن وارڈز میں رکھا جا رہا ہے جس کی وجہ ایک تو اس مرض کے حوالے سے سرکاری نگرانی ہے اور دوسری یہ کہ پرائیویٹ ہسپتال عام طور پر ایسے مریضوں کو اپنے ہاں رکھنے سے بھی گریزاں ہیں۔
کراچی کے آغا خان ہسپتال کے علاوہ ملک بھر کے پرائیویٹ ہسپتال ان مریضوں کو بھی نہیں قبول کر رہے جو اپنے خرچے یا  اپنی کمپنی کے خرچے سے کورونا کی کسی پیچیدگی جیسے سانس کی تکلیف وغیرہ کا علاج کروانا چاہیں۔  

 وفاقی دارالحکومت کی صورتحال  

اسلام آباد کے سب سے بڑے اور مشہور پرائیویٹ ہسپتال میں تو استقبالیہ پر ہی بورڈ لگا ہوا ہے کہ کورونا کے مریض پمز سے رابطہ کریں۔
ہسپتال کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ بورڈ اس لیے لگایا گیا ہے کہ یہاں پر ٹیسٹنگ کی سہولیات موجود نہیں ہیں اور یہ سہولیات گورنمنٹ کے پاس ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی جگہ پر مریض ٓاتا ہے پروٹوکول کے تحت دیکھا جاتا ہے اور سکریننگ کے لیے پمز کی طرف بھیجا جاتا ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت کو انہوں نے اس مشکل وقت میں ہسپتال کی طرف سے کوئی آئسولیشن وارڈ وغیرہ فراہم کرنے کی آفر کی ہے تو انہوں نے کہا کہ حکومت کو سہولیات کی فراہمی کی آفر پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔

سرکاری ہسپتال گندگی اور ناکافی سہولیات کی وجہ سے پسند نہیں کیے جاتے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

یہی حال اسلام آباد کے تمام پرائیویٹ ہسپتالوں میں ہے جہاں بظاہر کورونا کے مریضوں کو ’اچھوت‘ سمجھا جا رہا ہے ۔
اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی پالیسی کے مطابق کورونا کے مریضوں کو وزارت صحت کے زیر نگرانی پمز، پولی کلینک اور این آئی ایچ کے ہسپتالوں میں ہی علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تشویشناک حالت کے شکار مریض فی الحال صرف پمز میں ہی رکھے جا رہے ہیں جبکہ جن مریضوں کی حالت تشویشناک نہ ہو وہ گھروں میں ہی قرنطینہ کیے جا رہے ہیں۔
ڈی سی اسلام آباد کے مطابق پرائیویٹ ہسپتالوں نے بھی حکومت کو سو اضافی بیڈز دینے کی آفر کر رکھی ہے۔

صوبائی سطح پر انتظامات

لاہور کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر صفدر ورک نے اردو نیوز کو بتایا کہ لاہور میں کورونا کے مریضوں کو  میو ہسپتال، سروسز ہسپتال اور دیگر سرکاری ہسپتالوں میں ہی رکھا گیا ہے تاکہ ان کو حکومتی نگرانی میں رکھا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ فی الحال سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی گنجائش موجود ہے تاہم اگر گنجائش ختم ہو گئی تو پھر انہیں پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی شفٹ کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ ہسپتالوں کو کورونا کے مریضوں کے علاج پر مجبور کرنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے تاہم حکومت نے ان کی ایسوسی ایشن سے بات کر رکھی ہے۔

اسلام آباد میں کورونا کے مریضوں کا علاج پمز، پولی کلینک اور این آئی ایچ میں ہو رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

صوبہ خیبر پختونخواہ کی وزارت صحت کے ترجمان رضوان ملک نے اردو نیوز کو بتایا کہ صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں ہی کورونا کے مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔
اس وقت تک سرکاری ہسپتالوں میں کورونا کے  ایک ہزار سے زائد مریضوں کو رکھنے کی گنجائش موجود ہے تاہم حکومت نے پرائیویٹ ہسپتالوں کی نمائندہ تنظیم سے بات کر رکھی ہے جس کے تحت ضرورت پڑنے پر صوبے بھر میں پرائیویٹ ہسپتال ساڑھے پانچ سو بیڈز فراہم کریں گے۔
کوئٹہ سے اردو نیوز کے نمائندے زین الدین کے مطابق ابھی تک کورونا کے مریضوں کو صرف سرکاری ہسپتالوں میں ہی علاج فراہم کیا جا رہا ہے تاہم پرائیویٹ ہسپتالوں کے ساتھ صوبائی حکومت نے بات کر کے انہیں اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ کورونا کے مریضوں کے لیے بیڈز فراہم کریں گے۔
اردو نیوز کے نمائندے توصیف رضی کے مطابق کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں پرائیویٹ آغا خان ہسپتال نے شروع شروع میں کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کی تاہم اب آغا خان کے کچھ ڈاکٹروں میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد اس ہسپتال نے مزید مریض لینے اور انکے ٹیسٹ کرنے کا عمل فی الحال روک دیا ہے۔

پاکستان میں اب تک 20 ڈاکٹروں میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کراچی میں جن ہسپتالوں میں کورونا وائرس کا علاج کیا جا رہا ہے ان میں آغا خان ہسپتال، انڈس ہسپتال، جناح ہسپتال، ڈاؤ یونیورسٹی اوجھا کیمپس، اور سول ہسپتال شامل ہیں جبکہ اس کے علاوہ ضیاء الدین ہسپتال، پی این ایس شفاء، ایس آئی یو ٹی اور چغتائی لیبارٹری میں ٹیسٹنگ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ آغا خان پرائیویٹ ہسپتال ہے، انڈس مکمل فلاحی ہے۔ جبکہ ٹیسٹ کرنے والے ضیاء الدین اور چغتائی لیبارٹری بھی پرائیویٹ ہیں۔

سرکاری ہسپتالوں سے خوف کیوں؟

دوسری طرف سرکاری ہسپتالوں میں عدم سہولیات سے نہ صرف مریض خائف ہیں بلکہ وہاں کام کرنے والے ڈاکٹرز اور طبی عملہ بھی حفاظتی سامان کی عدم فراہمی کے باعث خوف میں مبتلا ہے۔ ملک بھر کے ڈاکٹر کورونا وائرس سے بچنے کے لیے فراہم کی گئی حفاظتی کٹس کی کمی اور ناکافی سہولیات کو ڈاکٹروں میں کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان میں اب تک 20 ڈاکٹروں میں کورونا وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے۔
پاکستان میں گلگت بلتستان میں ایک ڈاکٹر اور محکمہ صحت کے ملازم کی ہلاکت ہو چکی ہے، جبکہ پنجاب میں نو ڈاکٹروں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ جن میں تین کا تعلق گجرات، دو کا راولپنڈی، دو کا ڈیرہ غازی خان اور دو ہی کا لاہور سے ہے۔

حکام کے مطابق ضرورت پڑنے پر پرائیویٹ پسپتالوں کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ فوٹو: اے ایف پی

اسی طرح سندھ میں پانچ ڈاکٹروں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ بلوچستان میں چار ڈاکٹروں میں کورونا پایا گیا ہے اور ایک کا ٹیسٹ ابھی آنا باقی ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کوئٹہ زون کی ایک پریس ریلیز کے مطابق شیخ زید ہسپتال کے  ڈاکٹرز پچھلے ایک ماہ سے وہ آئسولیشن وارڈ میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ اور ان کے خاندان والے شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔
آئسولیشن میں رکھے گئے مریضوں کی نقل و حمل اور مریضوں کے عزیز و اقارب کی آزادانہ آمد و رفت آئسولیشن پروٹوکولز کی شدید خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ ڈیوٹی ڈاکٹرز کو فراہم کی جانے والی پی پی آئی کٹس بھی بعض اوقات استعمال شدہ ہوتی ہیں۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: