Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ کورونا سے کیسے نمٹ رہا ہے؟

محکمہ صحت اور پولیس کورونا کے خلاف چومکھی لڑائی میں مصروف ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب اب کورونا کے متاثرین کی تعداد میں بھی ملک میں پہلے نمبر پر آ گیا یے۔
تازہ ترین سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صوبے میں کورونا کیسز کی تعداد ساڑھے چھ سو کے قریب پہنچ چکی ہے اور اس سے چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ صوبے بھر میں جزوی طور پر لاک ڈاون 24 مارچ سے جاری ہے۔
محکمہ صحت اور پولیس کورونا کے خلاف چومکھی لڑائی میں اگلے مورچوں پر دکھائی دے رہے ہیں۔ ماریہ بی کے شوہر کی گرفتاری کا واقعہ ہو یا کورونا کے حفاظتی انتظامات میں خلل ڈالنے والے دیگر واقعات ہوں سب میں ایک چیز واضع ہے کہ محکموں کے درمیان مربوط روابط قائم ہو چکے ہیں۔
ایسے میں اردو نیوز نے یہ جاننے کے لئے کہ کورونا کی اس آفت سے نمٹنے کے لیے پنجاب کیا اقدامات کر رہا ہے، اس مضمون میں مختلف محکموں کی حکمت عملی کا جائزہ لیا ہے کہ وہ کورونا کے خلاف کیسے کام کر رہے ہیں۔

ٹیکنالوجی کا سہارا

کورونا کے خلاف جنگ میں سب سے بڑا اور مشکل کام کسی بھی مریض میں کورونا وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد ایسے افراد کو ڈھونڈنا ہوتا ہے جن سے متاثرہ شخص  پچھلے چودہ روز میں ملا ہو۔

 پنجاب کے سیکرٹری صحت (پرائمری اینڈ سیکینڈری) کیپٹن عثمان نے بتایا کہ شروع میں اس حوالے سے دقت کا سامنا تھا اب اس کا حل نکال لیا ہے ’ہم نے ایک اینڈرایئڈ ایپلیکیشن بنائی ہے جو صرف محکمہ ہیلتھ کا عملہ استعمال کر رہا ہے یہ عوام کے لیے نہیں ہے۔
یہ ایپلیکیشن ایسے کام کرتی ہے کہ جو بھی شخص کورونا سے متاثرہ نکلتا ہے ہم فوری طور پر اس کا ڈیٹا اس ایپلیکیشن میں لوڈ کر دیتے ہیں اور ساتھ اس شخص سے پچھلے چودہ روز میں ملنے والے افراد کا ڈیٹا بھی اس کے پروفائل کے ساتھ لوڈ کر دیتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’چاہے پھر اس سے ملنے والا شخص پنجاب کے کسی بھی شہر یا قصبے میں گیا ہو، ایپلیکیشن کے ڈیش بورڈ پر متعلقہ ضلع اور شہر ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے اور ہمارا وہاں کا عملہ فوری اس شخص کو جا کے ملتا ہے اور اس کے بھی نمونے لیے جاتے ہیں۔‘
سیکریٹری ہیلتھ کیپٹن عثمان نے بتایا کہ اب تک ایسے افراد جو زائرین نہیں تھے اور کسی قرنطینہ میں بھی نہیں تھے ان کی تعداد 320 ہے اور ان تمام افراد سے رابطے میں آنے والے 1800 افراد کو صوبہ بھر سے ٹریس کیا گیا اور تمام کے نمونے لئے گئے ہیں۔

لاک ڈاون پر عمل درآمد کی ذمہ داری پولیس پر ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تحصیل کی سطح پر کمیٹیاں بنائی گئی ہیں ایک کمیٹی کی سربراہی اس تحصیل کا ریوینو آفیسر کر رہا ہے جبکہ اس کے ساتھ پولیس، فوج اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کا ایک ایک نمائندہ شامل ہے۔ اس کمیٹی کا کام متعلقہ تحصیل میں مکمل رابطہ کاری کو موثر کرنا ہے۔ اگر کسی بھی تحصیل میں چوبیس گھنٹوں میں دس سے زیادہ کیس سامنے آتے ہیں تو اس تحصیل میں اسی حساب سے کمیٹیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

پولیس پر انحصار

کورونا سے نمٹنے کے لیے حکومت نے حال ہیں میں وبائی امراض کی روک تھام کا آرڈیننس جاری کیا ہے جس میں اب کسی بھی طرح کا حکم نامہ جاری کرنے کے اختیار حکومت نے حاصل کر لیے ہیں۔ اور ان احکامات پر عمل درآمد کے لیے پولیس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
 سب سے پہلے لاک ڈاون کی صورت حال کو ہی لیجئے۔ لاک ڈاون پر عمل درآمد کی ذمہ داری پولیس پر ہے۔
 پنجاب کے ڈی آئی جی آپریشن سہیل سکھیرا کہتے ہیں کہ اس وقت تمام کی تمام توانائیاں حفاظتی اقدامات پر ہے۔ ’ہم محکمہ صحت کے ساتھ مکمل رابطے میں ہیں۔ جب بھی کوئی مریض کنفرم ہوتا ہے تو پولیس کے پاس بھی اس کی فوری معلومات پہنچ جاتی ہیں۔ اس گھر کو قرنطینہ میں تبدیل کرنا ہو یا اس سے ملنے جلنے والوں کا کھوج لگانا ہو پولیس کوئی بھی وقت ضائع کیے بغیر موجود ہوتی ہے۔‘

پولیس لوگوں کو گھر میں رکھنے میں بھی انتظامیہ کی مدد کر رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ لاک ڈاون کی صورت حال پر بھی پولیس نظر رکھے ہوئے ہے۔
’لاہور میں مختلف ناکوں پر 54 ہزار سے زائد شہریوں کو روکا گیا جن میں سے 51 ہزار کو دوبارہ بغیر وجہ کے نہ نکلنے کی تنبیہ کی گئی۔ 15 سو سے زائد گاڑیاں بند کی گئیں جن کے بارے میں پولیس کو مکمل یقین تھا کہ وہ بغیر کسی وجہ سے باہر نکلے۔ اسی طرح 21 سو سے زائد ایسے افراد جو غیر ضروری طور پر باہر دکھائی دئیے انہوں ذاتی گارنٹیاں لے کر چھوڑا گیا۔‘
ڈی آئی جی سہیل سکھیرا نے بتایا کہ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ کیسے پولیس کورونا سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ جبکہ تمام قرنطینہ سینٹروں کے باہر اور جہاں جہاں نئے مریض سامنے آ رہے ہیں وہاں گھروں کو قرنطینہ سینٹروں میں تبدیل کرنے کے لیے بھی پولیس متحرک ہے۔

شیئر: