Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا پر ’کرونولوجی سمجھیے‘ کی بحث

نظام الدین مرکز میں ہونے والے اجتماع ہزاروں افراد نے شرکت کی (فوٹو پریس ٹرسٹ انڈیا)
انڈیا میں کورونا وائرس کی ساری بحث گذشتہ دو دنوں سے دارالحکومت دہلی کی بستی حضرت نظام الدین میں قائم تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز کے ارد گرد ہو رہی ہے۔
میڈیا کے ایک حصے میں اسے ’سازش‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ واٹس ایپ پر ایک پوسٹ ’کرونولوجی سمجھیے‘ کے عنوان سے گشت کر رہی ہے جس میں نظام الدین مرکز میں ہونے والے اجتماع، کورونا وائرس اور حکومت کے اقدام کے تعلق سے بات کی گئی ہے۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ اجتماع 13 تا 15 مارچ منعقد ہوا جس میں تین ہزار سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔ خیال رہے کہ تبلیغی جماعت کے اجتماعات عام بات ہیں اور ان میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگ یکجا ہوتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کا سب سے بڑا سالانہ اجتماع بنگلہ دیش میں پھر پاکستان کے رائے ونڈ میں اور پھر دہلی کے عیدگاہ میں اور بھوپال وغیرہ میں منعقد ہوتا ہے۔
یہ اجتماع بھی معمول کے مطابق تھا جس میں بیرون ملک سے بھی لوگوں نے شرکت کی تھی۔ ’کرونولوجی سمجھیے‘ یعنی بات کو ترتیب وار طور پر دیکھیے کے عنوان سے کہا گیا ہے کہ 13 مارچ کو انڈیا کی وزارت صحت نے کہا تھا کہ ’کورونا وائرس ہیلتھ ایمرجنسی نہیں ہے۔‘ اسی دن اجتماع شروع ہوا جو 15 تاریخ کو اختتام پذیر ہوا۔
انڈین ایکسپریس میں شائع خبر کے مطابق ریاست تمل ناڈو میں اب تک 57 لوگ کورونا وائرس سے متاثر پائے گئے ہیں جن میں سے 50 نے تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کی تھی۔

اجتماع کے شرکا میں سے سینکڑوں میں کورونا کی تصدیق ہوئی ہے۔ فوٹو انڈیا ٹوڈے

اخبار کے مطابق جموں کشمیر سے اجتماع میں 850 افراد شامل ہوئے جن میں 25 کو کورونا کی تشخیص ہوئی ہے۔ دہلی کے لوگوں میں 24، اترپردیش کے 157 لوگوں میں سے چھ، تیلنگانہ کے 386 لوگوں میں سے 49، آندھرا پردیش کے 711 لوگوں میں سے 29، تمل ناڈو کے 1500 لوگوں میں سے 124 اور انڈمان نکوبار جزیروں کے 11 لوگوں میں سے 9 میں اب تک کورونا کے مثبت کیسز سامنے آئے ہیں۔
اس اجتماع میں بیرون ممالک تھائی لینڈ، فیجی، ملائیشیا، انڈونیشیا، میانمار، برطانیہ، کرغستان، بنگلہ دیش وغیرہ سے بھی لوگ شامل ہوئے تھے۔ ان کی تعداد پونے تین سو کے قریب بتائی جا رہی ہے۔
کرونولوجیی سمجھیے کے تحت لکھا گیا ہے کہ 16 مارچ کو ہندو مہاسبھا کورونا کی وبا سے لڑنے کے لیے دہلی اور دوسرے مقامات پر گؤ موتر (پیشاب) پارٹی کا انعقاد کرتی ہے۔ اسی دن حکومت دہلی میں تمام مذہبی مقامات کو بند کرنے کا حکم جاری کرتی ہے۔
17 مارچ کو ہزاروں زائرین جنوبی ہند کے معروف مندر تروپتی میں یکجا ہوتے ہیں اور 18 تاریخ کی میڈیا رپورٹ میں بتایا جاتا ہے کہ 40 ہزار سے زیادہ عقیدت مند وہاں موجود ہیں۔ 19 مارچ کو وزیراعظم 22 مارچ کے لیے ’جنتا کرفیو‘ کا اعلان کرتے ہیں اور ایک دن کے کرفیو کے لیے تین دنوں کا وقت دیتے ہیں۔ 22 کو جنتا کرفیو پر عمل کیا جاتا ہے لیکن شام تک اس کی خلاف ورزی اس وقت نظر آتی ہے جب لوگ وزیراعظم کی خواہش کے مطابق سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں نکل کر ہیلتھ ورکرز کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

اجتماع میں بیرون ملک سے تقریباً تین سو نے شرکت کی۔ فوٹو پریس ٹرسٹ انڈیا

اسی دن نظام الدین مرکز میں تمام پروگرام منسوخ کردیے جاتے ہیں اور ہر طرح کی نقل حرکت پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ دہلی کے وزیراعلیٰ کیجریوال 23 کی صبح چھ بجے سے ریاست دہلی میں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہیں۔ 
23 مارچ کو بی جے پی حکومت کو مدھیہ پردیش میں حلف دلایا جاتا ہے اور سڑکوں پر بہت دھوم دھام سے جشن منایا جاتا ہے۔ 
24 مارچ کو وزیر اعظم مودی چار گھنٹے کی نوٹس پر ملک بھر میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیتے ہیں جس میں ملک کی ایک ارب 30 لاکھ سے زیادہ آبادی مکمل طور پر پھنس کر رہ جاتی ہے۔ 
25 مارچ کو اترپردیش کے یوگی آدتیہ ناتھ ایودھیا میں ایک رام جنم بھومی میں پوجا کی ایک بڑی تقریب میں شرکت کرتے ہیں جہاں ’نونہال‘ رام کی تصویر کو عارضی عمارت میں منتقل کیا جاتا ہے۔
30 مارچ کو یہ خبر آتی ہے کہ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کرنے والے چھ افراد کی موت ہوگئی ہے۔ 30 مارچ کو ہی کیجریوال نظام الدین انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کا حکم دیتے ہیں۔
اس ضمن میں بہت سے لوگ یہ سوال بھی کرتے نظر آرہے ہیں کہ کیجریوال نے دہلی فسادات سے قبل ان لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کا حکم کیوں نہیں دیا جو اشتعال انگیز تقاریر کر رہے تھے اور جنہیں بالواسطہ طور پر بہت سے لوگ فرقہ وارانہ فسادات کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان فسادات میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

انڈیا میں لاک ڈاؤن کے دوران باہر نکلنے پر سخت پابندی ہے (فوٹو اے ایف پی)

اور 31 مارچ کے بعد سے انڈیا میں کورونا وائرس کا سارا الزام مسلمانوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں میڈیا کے جانب دار رویے پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے اور مختلف اقسام کی پوسٹ شائع ہو رہی ہیں۔ نظام الدین والے اپنی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو سامنے لا رہے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کو وہاں سے منتقل کرنے کی کوشش کی لیکن حکومت کی جانب سے انہیں امداد نہیں مل سکی۔ لیکن چند میڈیا ہاؤس کو چھوڑ کر ان کی باتوں کو کوئی بھی توجہ دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔
معروف صحافی سگاریکا گھوش نے ٹویٹ کیا ’جو لوگ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو گرفتار کرنے کی بات کر رہے ہیں انہیں نکنیکا کپور، ان کے وی آئی پی میزبان، مدھیہ پردیش کے تمام ایم ایل اے کو بھی گرفتار کرنے کی بات کرنی چاہیے جنہوں نے کووڈ کے پھیلاؤ کی رپورٹ کے بعد بھی میٹنگز کیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’دونوں ایوانوں کے ان 700 رکن پارلیمان کو بھی گرفتار کرنے کی بات کرنی چاہیے جنھوں نے 21 دنوں کے لاک ڈاؤن کے بعد سماجی دوری قائم کرنے کے بجائے پارلیمان میں شرکت کی۔‘
 

شیئر: