Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین شہریوں کو سہولیات چاہئیں یا مہا بھارت اور رامائن؟

انڈین حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے کہ مزدوروں کے لیے کچھ نہیں کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں گذشتہ چار دن سے لاک ڈاؤن جاری ہے جو 14 اپریل تک جاری رہے گی۔ اس دوران انڈیا کے سرکاری ٹی وی چینل دور درشن نے اعلان کیا ہے کہ عوام کے مطالبے پر وہ اپنے زمانے کے معروف ٹی وی سیریلز ’رامائن‘ اور ’مہا بھارت‘ کی دوبارہ نشریات شروع کر رہا ہے۔
اس ضمن میں جہاں لوگ اس کی دوبارہ نشریات کے فیصلے کو سراہ رہے ہیں وہیں بہت سے لوگ اسے تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک طرف عوام سڑکوں پر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں تو دوسری طرف وزرا ’رامائن‘ اور ’مہا بھارت‘ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
خیال رہے کہ رامائن اور مہا بھارت ہندوؤں کی دو رزمیہ داستانوں پر مبنی ٹی وی سیریلز ہیں جو اپنے زمانے میں خاصے مقبول ہو‏ئے تھے اور ان کی نشریات سے بہت سے لوگ ماضی کو یاد کرنے لگے ہیں۔ 
واٹس ایپ پر ایک پوسٹ مختلف ورژن کے ساتھ گشت کر رہی ہے جس میں بی جے پی کے وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاوڑیکر کے ٹویٹ کے جواب میں کہا جا رہا ہے کہ کورونا کے زمانے میں عوام کا مطالبہ بہتر سہولیات، ماسک، سینیٹائز ہوں گے کہ مہا بھارت اور رامائن؟
انڈیا کے وزیر اطلاعات و نشریات جاوڑیکر نے رامائن دیکھتے ہوئے اپنی ایک تصویر پوسٹ کی تھی جس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یہاں تک کہ انہوں نے اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کی اور اس کی جگہ 'ورکنگ فرام ہوم' کی ایک پوسٹ ڈالی۔
ان کی تصویر کے ساتھ لوگوں نے بڑے پیمانے پر میمز بنائیں اور بے یارو مددگار عوام کی تصاویر بھی پیش کیں جن کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔
صبا خان نامی ایک ٹوئٹر صارف نے صرف مختلف ہیش ٹیگ کے ساتھ مسٹر جاوریکڑ کی تصاویر کے ساتھ چند پیدل چلنے والے مزدوروں کی ایک تصویر پوسٹ کی جو اپنے آپ میں بہت حد تک حالات حاضرہ پر تبصرہ ہے۔
ایس ایس سوریہ ونشی نامی ایک صارف نے وزیر کی پوسٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور فرانس کے سنہ 1789 کے انقلاب کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ 'جب بھوک سے نڈھال عوام نے رانی میری اینتونتیت کے محل کے سامنے مظاہرہ کیا تو رانی نے پوچھا کہ یہ کیوں مظاہرہ کر رہے ہیں تو کسی نے کہا کہ ان کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے تو ان کا جواب تھا کہ ’روٹی نہیں تو وہ کیک کیوں نہیں کھاتے۔‘
رمیش شریوتس نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’پرکاش جاوڑیکر نے شاید اپنا یہ ٹویٹ ہٹا لیا۔ انہیں مودی کی جانب سے غصے میں کال آئی ہوگی۔ یار میں نے لوگوں کو مناسب سیریل (اناج) فراہم کرنے کی بات کہی تھی (ٹی وی) سیریلز کی نہیں۔‘
دوسری جانب عوام کی بے کسی کو بیان کرتے ہوئے بہت سے لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں ٹویٹس کی ہیں۔
میگرے اشیاق نامی صارف نے لکھا ہے کہ ’اے کاش جو مزدور سینکڑوں میل پیدل چل کر اپنے گھروں کو بغیر کھانے اور پینے کے جا رہے ہیں انہیں بھی یہ عیش مہیا ہوتے۔‘

معروف صحافی سہاسنی حیدر نے لکھا کہ لاکھوں لوگ جو سڑکوں پر پیدل اپنے گھروں کے لیے چلے جا رہے ہیں ان کا الزام صرف کورونا وائرس پر نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔ ’یہ ایک انسان کا پیدا کردہ المیہ ہے جو کہ حکومت کے اچانک لاک ڈاؤن کے بغیر سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ ہے۔‘
بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ کوئی رامائن اور مہا بھارت اسی وقت دیکھے گا جب اس کے پاس نیٹ فلکس نہیں ہوگا جبکہ بہت سے لوگوں جن میں معروف کرکٹر سچن تندولکر بھی شامل ہیں نے پرانے بہت سے سیریلز کو بھی دوبارہ نشر کرنے کی فرمائش کی ہے۔

شیئر: