Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ایران آبنائے ہرمز بند کرنے کا متحمل ہے؟

سیدھا سا جواب یہ ہے کہ یہ ایک مایوس شخص کا انتخاب ہوگا۔
 ایران بخوبی جانتا ہے کہ آبنائے ہرمز کو بند کرنا کسی سفارت پر بمباری یا طیارہ گرانے جیسا نہیں بلکہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو کھیل کے تمام اصول بدل سکتا ہے اور اس کی قیمت بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔
 البتہ یہ تہران کے ہاتھ میں ایک مؤثر ہتھیار ضرور ہےجس کے ذریعے وہ اپنے دشمنوں پر دباؤ بڑھا سکتا ہے اور گویا دنیا سے کہتا سکتا ہے کہ ’صرف ہم ہی قیمت نہیں چکائیں گے‘۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور امریکہ کے اس محاذ میں شامل ہونے کے بعد تہران نے دنیا کی سب سے اہم اور حساس سمندری گزرگاہ، آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔
 ایرانی پارلیمنٹ میں قومی سلامتی کمیٹی کے سربراہ بہنام سعیدی کا بیان محض میڈیا کیلئے چال نہ تھا بلکہ نہایت نازک وقت میں دیا گیا ایک سنجیدہ اشارہ تھا، خاص طور پر جب جنگ دونوں جانب سے توانائی کے اثاثوں پر حملوں، اسرائیلی اہداف پر میزائل حملوں اور امریکہ کو ممکنہ طور پر جنگ میں گھسیٹنے کی کوششوں کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
آبنائے ہرمز سے روزانہ تقریباً 21 ملین بیرل تیل گزرتا ہے جو کہ عالمی تیل برآمدات کا پانچواں حصہ بنتا ہے، ساتھ ہی دنیا کی مائع قدرتی گیس کی ایک تہائی برآمدات بھی اسی راستے سے ہوتی ہے۔
یہ آبنائے دراصل عالمی توانائی کی ایک شہ رگ ہے جس کے ذریعے خلیج کے بیشتر ممالک کا تیل اور گیس ایشیا اور یورپ کو جاتا ہے حتیٰ کہ ایران کا اپنا برآمدی تیل بھی۔
 تہران کی یہ دھمکیاں، اپنی سنگینی کے باوجود، کئی پیچیدہ حقائق سے ٹکرا جاتی ہیں۔
 ایران خود بھی اسی آبنائے پر انحصار کرتا ہے، خاص طور پر جزیرہ خرج سے، جہاں سے وہ اپنے تیل کا 90 فیصد برآمد کرتا ہے۔
 اس کے علاوہ ایران کے اتحادی بھی اس سے متاثر ہو سکتے ہیں، خاص طور پر چین، جو ایرانی تیل کی 75 فیصد سے زائد مقدار درآمد کرتا ہے اور جس کے تیل بردار جہاز باقاعدگی سے اسی راستے سے گزرتے ہیں۔
مزید یہ کہ بحرین میں تعینات امریکی پانچواں بحری بیڑہ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ واشنگٹن بین الاقوامی بحری گزرگاہوں میں کسی بھی رکاوٹ کو برداشت نہیں کرے گا۔
ان حقائق کی روشنی میں غالب امکان یہ ہے کہ ایران مکمل بندش کے بجائے محدود نوعیت کے اقدامات کرے گا، مثلاً جہاز رانی کو دھمکانا یا مخصوص آئل ٹینکروں کو نشانہ بنانا تاکہ وہ اپنی دھمکی کی طاقت کو ظاہر کر سکے مگر بھاری قیمت سے بچ بھی جائے۔
اگر کشیدگی کا سلسلہ یونہی بڑھتا رہا تو ممکن ہے کہ آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا فیصلہ صرف تہران کے ہاتھ میں نہ رہے بلکہ کسی بڑی اسٹراٹیجک ضرب یا جنگ کے پھیلاؤ کی صورت میں حالات ایران کو ایسا اقدام کرنے پر مجبور کر دیں۔
گوکہ آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا منظرنامہ نہایت خطرناک ہے لیکن یہ مکمل طور پر خارج از امکان بھی نہیں۔ البتہ اس کا استعمال ایران کی طرف سے زیادہ تر دباؤ ڈالنے اور سودے بازی کے لیے ایک کارڈ کے طور پر ہوتا ہے نہ کہ جنگ میں پہلا قدم اٹھانے کے طور پر کیونکہ اس اقدام کی جیوپولیٹیکل لاگت بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔  بین الاقوامی تنہائی حتیٰ کہ ایک بڑی عسکری مداخلت تک، جو پورے علاقائی سیکیورٹی نقشے کو بدل کر رکھ دے۔

(بشکریہ: العربیہ)

 

شیئر: