Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ کا ضمانت پر رہا قیدیوں کی گرفتاری کا حکم

کورونا وائرس کے باعث ہائی کورٹس نے قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستان کی سپریم کورٹ نے کورونا وائرس کے باعث ہائی کورٹس کی جانب سے ضمانت پر رہا کیے گئے قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔ 
عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ ہائی کورٹ کے پاس از خود نوٹس کا اختیار نہیں ہے، ہائی کورٹس نے سنگین جرائم میں ملوث افراد کو رہا کر دیا۔
عدالت نے مزید کہا کہ کوئی بھی جج عوامی رائے پر نہیں بلکہ قانون پر چلنے کا پابند ہے۔ 
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے اسلام آباد اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے فیصلوں کے خلاف اپیل پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
اس حکم نامے میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کے پاس بادشاہ والا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ جو چاہے فیصلہ کر دے بلکہ اسے ہر صورت میں قانون کو سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ 
سپریم کورٹ نے کہا کہ ’سمجھ سکتے ہیں کہ پوری دنیا اس وقت کورونا کی وبا سے لڑ رہی ہے لیکن ہائی کورٹس نے تھوک کے لحاظ سے قیدیوں کو رہا کرکے امن عامہ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔‘
’قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے قانونی طریقہ کار بھی اپنایا نہیں گیا۔ ریاست، قیدی اور مدعی کو نوٹس تک نہیں بھیجا گیا۔ ہائی کورٹ کے پاس از خود نوٹس کا اختیار نہیں تو وہ اس کا استعمال بھی نہیں کر سکتی۔ ‘
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے دی گئی ضمانتیں منسوخ کرتے ہوئے تمام قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ عدالت نے درخواست کو (3)184 کے تحت سننے کا فیصلہ کیا۔ 

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی رہائی میں قانونی طریقہ کار نہیں اپنایا گیا۔ فوٹو اے ایف پی

عدالت نے قرار دیا کہ گلوبل ویلیج کا حصہ ہوتے ہوئے کورونا وائرس سے بچاؤ کی عالمی کوششوں کا حصہ رہنا چاہیے۔ اس حوالے سے قیدیوں کو بھی کورونا وائرس سے بچاؤ کے اقدامات قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنا ہوں گے۔ 
عدالت نے اٹارنی جنرل کی قیدیوں کے حوالے سے دی گئی تجاویز قبول کر لی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو تجویز دی تھی کہ عدالت موجودہ صورت حال میں ہائی کورٹس کے فیصلوں کی روشنی میں ضمانت پانے والوں میں سے تین سال سے کم سزا والے قیدیوں، 55 سال سے زائد عمر کے زیر التو مقدمات کے قیدیوں کو فائدہ دے، جب کہ سنگین جرائم میں ملوث افراد کی ضمانتیں منسوخ کر دے۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹس کے فیصلوں سے عورتوں اور بچوں کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کو کوئی فائدہ نہ دیا جائے۔ 
عدالت نے کورونا وبا سے نمٹنے کے حکومتی اقدامات پر سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ بھی کیا۔ 
کورونا وائرس کے باعث ہسپتالوں کی بندش اور سہولیات سے متعلق معاملے پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بلوچستان میں ڈاکٹروں کے حوالے سے کیا اطلاعات ہیں۔ پولیس وین بھر کر ڈاکٹروں کو لے کر گئے تھے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ تمام ڈاکٹرز کو بعد میں چھوڑ دیا گیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ڈاکٹرز کے مطالبات کیا تھے؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ وہ حفاظتی کٹس کا مطالبہ کر رہے تھے، کابینہ نے ڈاکٹرز کے مطالبات کی منظوری دے دی ہے۔ 

سپریم کورٹ نے کوئٹہ میں گرفتار کیے گئے ڈاکٹروں کے بارے میں بھی استفسار کیا۔ فوٹو اے ایف پی

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ جتنی کٹس اور سہولیات دستیاب ہیں وہ فراہم کریں۔ موجودہ صورتحال میں جو چیزیں چاہیے وہ روزانہ کی بنیاد پر فراہم کریں۔ چیف جسٹس کے پوچھنے پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا بلوچستان حکومت کو کرونا وائرس کے تدارک کے لیے 443 ملین روپے ملے ہیں۔ 118ملین روپے ابھی تک خرچ ہوئے ہیں۔
عدالت نے ایک بار ہھر ہسپتالوں کی اوپی ڈیز بند ہونے پر سوال اٹھایا تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ان کی مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا سے اس سلسلے میں بات ہوئی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ صحت کے شعبہ میں حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات پر بریفنگ دینا چاہتے ہیں۔ حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ او پی ڈیز میں لوگ اکھٹے ہو جاتے ہیں۔ باقی ہر طرح کے مریضوں کے لیے ایمرجنسی کھلی ہے۔ 
 عوام میں امداد کی تقسیم کے حوالے سے جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ پیسہ حقداروں تک پہنچنا چاہیے۔ مقامی حکومتیں ہوتی تو لوگوں کی نچلی سطح پر مدد ہوتی۔ حکومت نے مقامی حکومتوں کو خود غیر موثر کردیا۔ اسلام آباد میں بھی مقامی حکومت غیر موثر ہے، جس سے حکومت کے اپنے لیے مسائل کھڑے ہوئے ہیں۔ 

شیئر: