Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیلی میڈیسن: آن لائن طبی مشورے سے ’وقت اور وسائل دونوں کی بچت‘

پاکستان میں آن لائن چیک اپ کے ذریعے مختلف طبی سہولیات گھر بیٹھے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ٹیلی میڈیسن یعنی آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے ڈاکٹر سے مشورہ اور معائنہ کروانا کوئی نئی بات نہیں، وہاں لوگ کورونا وبا سے بھی پہلے سے ویڈیو کالز اور موبائل ایپس کے ذریعے اپنا طبی معائنہ کروا رہے ہیں۔
تاہم پاکستان میں ٹیلی میڈیسن کا رجحان کورونا وبا کے بعد تیزی سے بڑھا ہے، اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ لاکھوں افراد علاج معالجے کے لیے آن لائن ذرائع کا سہارا لے رہے ہیں۔
اس حوالے سے اگرچہ کوئی سرکاری اور حتمی اعداد و شمار دستیاب نہیں، تاہم اردو نیوز کو موصول ہونے والے محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں ہر سال لگ بھگ 50 لاکھ مریض یا صارفین کسی نہ کسی شکل میں آن لائن پلیٹ فارمز یعنی موبائل ایپس یا ویب سائٹس کے ذریعے ڈاکٹروں سے مشورہ لے رہے ہیں یا اپنا معائنہ کروا رہے ہیں۔
اردو نیوز نے زیرنظر رپورٹ میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں ٹیلی میڈیسن کے رجحان میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟ آن لائن طبی مشورہ کہاں مؤثر ثابت ہو سکتا ہے اور کہاں نہیں؟ اس کے کیا فوائد اور کیا ممکنہ نقصانات ہیں؟

پاکستان میں کون سی اہم آن لائن ہیلتھ ایپس موجود ہیں؟

پاکستان میں موجود مستند اور معروف آن لائن ہیلتھ ایپس کا ذکر کیا جائے تو اس فہرست میں کئی نام سامنے آتے ہیں، جن میں صحت کہانی، اولا ڈاک، مرہم، مائی ڈاکٹر ڈاٹ پی کے، دوائی، میری صحت اور فائنڈ مائی ڈاکٹر جیسی ایپس شامل ہیں۔

ٹیلی میڈیسن کے ذریعے کون سا میڈیکل چیک اپ کروایا جا سکتا ہے؟

پاکستان میں آن لائن چیک اپ کے ذریعے مختلف طبی سہولیات گھر بیٹھے حاصل کی جا سکتی ہیں، جن میں جنرل چیک اپ، جلدی بیماریوں کا معائنہ، ذہنی صحت کے لیے کونسلنگ، خواتین کے تولیدی مسائل کا ابتدائی معائنہ، بچوں کے امراض، ذیابیطس اور بلڈ پریشر کی مینجمنٹ، آنکھوں کے معمولی امراض اور دل کی بیماریوں کا ابتدائی چیک اپ وغیرہ شامل ہے۔
اسلام آباد کے جی ایٹ مرکز میں نجی کلینک چلانے والے سینیئر پلاسٹک سرجن ڈاکٹر سید مسرت حسین نے پاکستان میں ٹیلی میڈیسن کے رجحان کے حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا کے کئی ممالک میں یہ رجحان کافی عرصے سے موجود ہے، تاہم پاکستان میں اس کا آغاز کووڈ-19 کے بعد ہوا کیونکہ اس دوران ہسپتالوں میں غیرضروری عملے یا بڑی تعداد میں مریضوں کی موجودگی خطرناک ثابت ہو سکتی تھی، اسی لیے پاکستان میں بھی طبی شعبے نے آن لائن چیک اپ اور ٹیلی میڈیسن کی سہولت کو فروغ دینا شروع کیا۔‘

پاکستان میں متعدد آن لائن ہیلتھ ایپس مستند ڈاکٹروں کے ذریعے طبی مشورے فراہم کر رہی ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی

ڈاکٹر مسرت حسین کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی ایسی بیماری جو شدید نوعیت کی نہ ہو، اس کا آن لائن معائنہ ممکن ہے اور ڈاکٹرز گھر بیٹھے بآسانی مریض کا چیک اپ کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے وضاحت کی کہ ’ہر وہ بیماری جس میں ڈاکٹر کو فوری جسمانی معائنے یا مداخلت کی ضرورت نہ ہو، اس کے لیے ٹیلی میڈیسن موزوں ذریعہ ہے۔‘
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر کسی مریض کو شوگر کی تشخیص ہو چکی ہے تو اس کا روٹین یا فالو اپ چیک اپ ہسپتال آئے بغیر آن لائن بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بلڈ پریشر کے مریض بھی گھر بیٹھے مشورہ اور دوائی تجویز کروا سکتے ہیں۔ تاہم اگر کسی کی اچانک طبیعت خراب ہو یا وہ کسی حادثے کا شکار ہو جائے تو ایسی صورت میں ہسپتال جانا ہی ضروری ہوتا ہے اور وہاں پر ہی مکمل اور بروقت علاج ممکن ہوتا ہے۔‘

سرکاری ہسپتالوں میں ٹیلی میڈیسن کا رجحان کیوں کم ہے؟

ڈاکٹر سید مسرت حیسن نے سرکاری ہسپتالوں میں ٹیلی میڈیسن کے نسبتاً کم استعمال کے حوالے سے بتایا کہ ’پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کا غیرمعمولی رش اور ڈاکٹروں کی قلت اس کی بڑی وجہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مثال کے طور پر اسلام آباد کے بڑے سرکاری ہسپتال پمز میں او پی ڈی کے ایک شعبے میں روزانہ 700 سے 1000 مریضوں کا چیک اپ کیا جاتا ہے، جبکہ وہاں ڈاکٹروں کی تعداد زیادہ سے زیادہ چھ ہوتی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پمز میں ناصرف اسلام آباد بلکہ راولپنڈی اور گرد و نواح کے علاقوں، حتیٰ کہ دور دراز علاقوں سے آنے والے مریضوں کا معائنہ بھی کیا جاتا ہے، اس قدر رش کی وجہ سے طبی شعبے میں نئے تجربات یا آن لائن سسٹمز کو مؤثر انداز میں نافذ کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔‘
اسلام آباد کے معروف انٹرنیشنل ہسپتال میں معالج اور ڈرماٹولوجسٹ ڈاکٹر روبیہ عثمان سمجھتی ہیں کہ ’ٹیلی میڈیسن کا رجحان مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں پر مشتمل ہے۔‘ 

ٹیلی میڈیسن سے وقت اور وسائل دونوں کی بچت کی جا سکتی ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ آن لائن کس قسم کی معلومات حاصل کرتے ہیں اور کس مقصد کے لیے ڈاکٹروں سے مشاورت کرتے ہیں۔‘
ڈاکٹر روبیہ کا کہنا تھا کہ ’ٹیلی میڈیسن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ جس آن لائن پلیٹ فارم یا ذریعہ معلومات سے رجوع کر رہے ہیں، وہ مستند اور قابلِ اعتماد ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے ٹیلی میڈیسن کے مثبت پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹیلی میڈیسن کی مدد سے مریض کو گھر بیٹھے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسے ہسپتال جانے کی ضرورت ہے یا نہیں، جو وقت اور وسائل دونوں کی بچت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔‘
تاہم ان کا ٹیلی میڈیسن کے منفی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’کوئی شخص اگر غیرمستند ذرائع سے ٹیلی میڈیسن کی خدمات حاصل کرے، جیسے سوشل میڈیا پر موجود کوئی غیرمصدقہ ویڈیو یا تحریر، تو اس کے نتیجے میں نقصان بھی ہو سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر روبیہ نے کہا کہ موجودہ دور میں جب مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور جدید ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبے کو بدل دیا ہے، ایسے میں ٹیلی میڈیسن کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ تاہم مریضوں اور ڈاکٹروں دونوں کو یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ آن لائن مشورے کے دوران کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جو مریض کی صحت کے لیے ضرر رساں ثابت ہو۔‘

 

شیئر: