Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب: جیلوں سے قیدیوں کی بڑی تعداد میں رہائی کا فیصلہ

ان قیدیوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ فوٹو:سوشل میڈیا
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کا مزید پھیلاو روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر قیدیوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آئی جی جیل خانہ شاہد سلیم بیگ نے اردو نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا ’ہمیں قیدیوں سے رہائی سے متعلق خط موصول ہو چکا ہے اس محکمہ اب اس پر کام کر رہا ہے۔ ایسی فہرستیں مرتب کرنا ایک مشکل کام ضرور ہو گا لیکن ہم حکم کے تابع ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب میں اس وقت 41 جیلیں ہیں جہاں یہ احکامت ان تمام سپرینٹنڈنٹس تک پہنچا دئیے گئے ہیں میں حتمی طور پر نہیں بتا سکتا کہ کتنے لوگوں کو اس سے فائدہ ہو گا تاہم یہ بتا سکتا ہوں کے پورے پنجاب میں 600 کے قریب بچے جن کی عمریں 18 سال سے کم ہیں اور خواتین کی تعداد 700 کے قریب ہے جو اس رعائت سے مستفید ہوں گے۔‘

 

 اردو نیوز کو موصول ہونے والے ایک خط، جو لاہور ہائی کورٹ کے شعبہ ماتحت عدلیہ کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے صوبہ کے تمام سیشن ججز کو لکھا گیا ہے، کے مطابق مجاز حکام نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لئے جیلوں سے قیدیوں کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔
خط میں تمام ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے اپنے علاقوں کے جیل سپرینڈنٹس کے ساتھ مل کر قیدیوں کی رہائی کے انتظامات کریں۔
قیدیوں کی رہائی کے لیے وہ اصول بھی وضع کیے گئے ہیں جن کے تحت ان قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے گی۔
کون سے قیدی رہا ہوں گے؟
(1 ایسے تمام انڈر ٹرائل قیدی جن کے جرائم کی سزا 7سال سے کم ہوسکتی ہے انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔
(2 ایسے سزا یافتہ مجرم جن کی سزا کی حد 7 سال سے کم ہے انہیں بھی ضمانت پر رہا کیا جائے
(3 ایسے انڈر ٹرائل قیدی جن کے جرائم ضمانت ممنوعہ کے زمرے میں نہیں اتے۔
(4 ایسے انڈر ٹرائل قیدی جن کی سزائیں دس سال یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہیں انہیں بھی رہا کیا جائے۔
(5 اسی طرح تمام اٹھارہ سے کم عمر قیدی انڈر ٹرائل یا سزا یافتہ سب کو رہا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(6 پنجاب کی تمام جیلوں میں قید تمام خواتین چاہے وہ انڈر ٹرائل ہیں یا سزا یافتہ مجرم سب کو رہا کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔

’ایسے قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے جن کی پہلے ضمانتیں منسوخ ہی کیوں نہ ہوئی ہوں۔‘ فوٹو: اے ایف پی

تمام جیل حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی جیلوں میں قید موجود تمام ایسے قیدیوں کو جو مندرجہ بالا شرائط پر پورا اترتے ہیں ان کی ضمانت کی درخواستیں عدالتوں میں خود دائر کریں چاہے ان قیدیوں کی اس سے پہلے ضمانتیں منسوخ ہی کیوں نہ ہوئی ہوں۔
تاہم اس خط میں یہ واضع کیا گیا ہے کہ اس غیر معمولی چھوٹ کا اطلاق کسی بھی ایسے ملزم یا میں پر نہیں ہو گا جس کا مقدمہ دہشت گردی کی دفعات سے جڑا ہے۔ اسی طرح سات سال سے کم سزا والے ملزمان اور مجرمان کی درخواست ضمانت متعلقہ ٹرائل کورٹس کو ہی سننے کا اختیار بھی تفویض کر دیا ہے۔ اسی طرح 7 سال سے عمر قید کے تمام ملزمان اور مجرمان کی ضمانتیں ہائی کورٹ سے گی۔
اس خط میں کچھ ضروری ہدایات بھی دی گئی ہیں کہ جیسے ہی جیلوں سے یہ قیدی رہا ہوں صوبے کے ہر ضلع کا پولیس سربراہ ان رہا ہونے والے قیدیوں کو 14 روز تک عوام سے گھلنے ملنے نہیں دے گا یعنی اسے قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔

شیئر: