Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا وائرس کی تبلیغ

ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا نےورونا وائرس کو مذہبی رنگ دے دیا ہے (فوٹو:سوشل میڈیا)
انڈیا میں تبلیغی جماعت کو وقت تو لگا لیکن آخرکار اب اس کا ذکر گھر گھر پہنچ گیا ہے۔ تبلیغ کو اپنی زندگی کا مقصد بنانے والے اس سے زیادہ اور کیا چاہ سکتے ہیں؟
ہندو ہوں یا مسلمان اب سب کو معلوم ہے کہ تبلیغی کون ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ انہیں دیکھ کر پہلے بھی بھاگتے تھے اب بس بھاگنے والوں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ ہر اخبار میں ان کی تصویریں شائع ہو رہی ہیں۔
ملک میں کچھ میڈیا اور کچھ حکومت کی محبتوں کی وجہ سے تبلیغی جماعت اب کورونا وائرس کے 'کوریر' سے منسوب کی جانے لگی ہے۔
جب انڈیا کی وزارت صحت کی جانب سے کورونا وائرس پر بریفنگ ہوتی ہے تو ملک میں متاثرہ افراد کی کل تعداد کے ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان میں سے تبلیغی جماعت کے کارکنوں کے حصے میں کتنے کیسز آتے ہیں، ان کا کانٹریبیوشن کتنا ہے؟ جیسے تبلیغیوں سے جو وائرس پھیل رہا ہے اس کی قسم ہی الگ ہو۔
وزارت صحت کی ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ ملک میں متاثرہ افراد کی تعداد تقریباً چار دن میں دگنی ہو رہی ہے لیکن اگر دہلی میں واقع تبلیغی مرکز میں وائرس نہ پھیلتا اور پھر تبلیغی جماعت کے یہ ارکان ملک کے مختلف حصوں میں نہ پھیلتے تو یہ مدت سات دن ہوتی۔
جیسے وہ جان بوجھ کر وائرس کی زد میں آئے ہوں اور اب جان بوجھ کر پورے ملک میں اسے پھیلانے کی کوشش کر رہے ہوں۔

کورونا پھیلانے کے حوالے سے اصل خطرہ وہ ہیں جو پہلے ہی تبلیغی مرکز سے نکل چکے تھے (فوٹو:سوشل میڈیا) 

اور یہ سوال پوچھنے والوں کی تعداد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے کہ چین سے لے کر امریکہ تک اگر تبلیغیوں کی مہربانیوں کے بغیر اتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہو رہی ہے، روزانہ ہزاروں لوگ مر رہے ہیں، تو انڈیا  کیسے محفوظ رہ جاتا؟
ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا کا کیا ہی ذکر کریں؟ انہوں نے 'کورونا جہاد' اور 'بائیو جہاد' جیسے ہیش ٹیگ تخلیق کر کے کورونا وائرس کو مذہبی رنگ دے دیا ہے اور ان کی عدالت، جو 'انصاف' کرنے میں کبھی دیر نہیں لگاتی، اپنا فیصلہ سنا چکی ہے۔
مرکز سے جن تقریباً ڈھائی ہزار لوگوں کو ہسپتالوں اور کیمپوں میں منتقل کیا گیا تھا، ان میں سے درجنوں کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں لیکن اصل نقصان وہ لوگ پہنچا رہے ہیں جو پہلے ہی مرکز سے نکل چکے تھے۔ وہ اپنے گھروں کو لوٹے یا جگہ جگہ دوسری مساجد میں جاکر ٹھہرے جس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔
اس سب میں خود تبلیغی جماعت کے قائدین کی کتنی غلطی ہے؟ تبلیغی جماعت کے مرکز میں ہزاروں لوگ روزانہ موجود ہوتے ہیں، عام حالات میں انہیں اس کا حق حاصل ہے اور مذہب کی تبلیغ کرنے کا بھی۔
لیکن جماعت کے قائدین کو یہ تو معلوم ہوگا ہی کہ دنیا میں ایک خطرناک بیماری پھیل رہی ہے اور ٹی وی چینلوں کے برعکس، اس بیماری کا ذمہ دار وائرس مذہب کی بنیاد پر فرق نہیں کرتا؟ تو انہوں نے کیوں بروقت کارروائی نہیں کی؟

منتظمین کے مطابق انہوں نے پولیس کو مطلع کیا تھا کہ مرکز میں بڑی تعداد میں لوگ پھنسے ہوئے ہیں (فوٹو:سوشل میڈیا)

کیوں اپنے پروگرام منسوخ نہیں کیے؟ کیوں ملائیشیا اور انڈونیشیا سے آنے والے مہمانوں سے نہیں کہا کہ بھائی فی الحال اپنے گھر میں رہ کر عبادت کریں، اسی میں سب کی بھلائی ہے؟
کیوں انہیں یہ سمجھ نہیں آیا کہ دنیا بھر میں مذہبی تقریبات منسوخ کی جا رہی ہیں، جمعے کی نماز تک معطل کر دی گئی ہے تو اس کی کوئی ٹھوس وجہ تو ہوگی۔ ۔کیوں وہ یہ سوچتے رہے کہ جو لوگ تبلیغ کے لیے نکلے ہیں، وہ محفوظ رہیں گے؟
ان میں سے زیادہ تر سوالات کا جواب زیادہ مشکل نہیں ہے۔ چاہے آپ مذہب کی چادر اوڑھ کر دیکھیں یا اتار کر۔ اور اس کی جھلک لاک ڈاؤن کے باوجود ہمیں اپنی سڑکوں پر روز نظر آتی ہے جہاں آپ کو لوگ اپنی زندگیوں میں یوں مصروف دکھائی دیتے ہیں جیسے کورونا وائرس ایسی بیماری ہو جو ان کے علاوہ صرف دوسروں کو ہی لگ سکتی ہے۔
مرکز کے منتظمین اپنے دفاع میں کہتے ہیں کہ انہوں نے لاک ڈاؤن کا اعلان ہوتے ہی پولیس کو مطلع کر دیا تھا کہ مرکز میں بڑی تعداد میں لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ اس وقت بھی اگر لوگوں کو نکال لیا جاتا تو کافی نقصان سے بچا جاسکتا تھا لیکن پولیس اور مقامی انتظامیہ نے اس کام میں ایک ہفتہ ضائع کر دیا۔
یہ بات کچھ حد تک سچ ہو سکتی ہے لیکن اگر آپ ان بڑے بڑے ہالز کی تصاویر دیکھیں، جہاں کسی ریلوے پلیٹ فارم کی طرح دو ہزار سے زیادہ لوگ فرش پر بستر بچھا کر سو رہے تھے، تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ لوگ بہت مشکل وقت میں مصیبت کو دعوت دے رہے تھے۔ یہ ایک دوسرے سے اتنے قریب تھے کہ وائرس پھیلتا نہ تو کیا کرتا؟

جب لاک ڈاؤن ختم ہوگا اور ٹیسٹنگ بڑھے گی تو اصل تصویر سامنے آئے گی (فوٹو:سوشل میڈیا)

تو سبق کیا ہے؟ حکومت کے لیے یہ کہ ہندو ہو یا مسلمان، کورونا وائرس کو کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے حکومت کو بھی نہیں پڑنا چاہیے۔ ابھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے کسی کو نہیں معلوم کہ وائرس کہاں تک پہنچا ہے، اپنے گھروں کو خالی ہاتھ لوٹنے والے لاکھوں مزدوروں میں سے کتنے ایسے تھے جو وائرس کے ساتھ واپس گئے ہیں؟
جب لاک ڈاؤن ختم ہوگا اور ٹیسٹنگ بڑھے گی تو اصل تصویر سامنے آئے گی۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ آگے کی لڑائی پر فوکس کیا جائے، کسی ایک فرقے کو نشانہ بنا کر ہیڈلائنز تو بنائی جاسکتی ہیں لیکن یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔
تبلیغی جماعت اور ان کے ہم خیالوں کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ لوگ کورونا وائرس سے مرنے والوں کے جنازوں کو کندھا دینے سے بھی بچ رہے ہیں۔
اس لیے اپنے پیروکاروں سے یہ مت کہیے کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ امریکہ،سپین اور اٹلی کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان میں حفظان صحت کے نظام کا جو حال ہے اسے دیکھنے کے بعد بھی آپ کو اگر یہ لگتا ہے کہ دیکھا جائے گا تو جناب بس اتنا سمجھ لیجیے کہ کورونا وائرس کی طرح آپ کا بھی کوئی علاج نہیں ہے۔ 

شیئر: