Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نوبت درآمد شدہ قیمتی پھول جانوروں کو کھلانے تک آ گئی‘

شہزاد احمد شادی بیاہ و دیگر تقریبات میں پھولوں کی سجاوٹ کا کام کرتے ہیں، دیہاڑی 1500 روپے ہے، چائے اور کھانے کے پیسے الگ سے مل جائیں تو جیب خرچ نکل آتا ہے۔ کورونا وائرس کے خدشے کے پیشِ نظر تقاریب پر حکومتی پابندی کی وجہ سے مہینہ ہونے کو آیا ہے، شہزاد نے ایک روپیہ نہیں کمایا۔
اس کام میں شہزاد اکیلے نہیں، 7 لوگوں کی ٹیم ہے جو شادی بیاہ، سالگرہ، کارپوریٹ ایونٹس اور دیگر تقاریب میں پھولوں کی سجاوٹ کا کام کرتے ہیں۔
’ہم 7 لوگ ہیں، ڈیرھ ہزار روپے ہر بندے کی دیہاڑی ہے۔ باقی خوشی یا کھانے کے نام پر اوپر سے پیسے مل جائیں تو ہماری ٹیم ایک دن میں 15 ہزار کما ہی لیتی تھی۔ اللہ کا شکر تھا، مگر میہنہ ہوگیا ہے کوئی ایک دیہاڑی نہیں لگی۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے شہزاد کا کہنا تھا کہ 'رمضان میں ویسے بھی کام میں مندی ہوتی ہے۔ کہیں ایک آدھ افطار پارٹی یا ختم القرآن کی تقریب کا آرڈر مل گیا تو ٹھیک، ورنہ ہمارے پاس یہی دن ہوتے ہیں کہ ہم رمضان سے پہلے اتنا تو کما لیں کہ عید تک کا بندوست ہو جائے۔
’مگر اس بار رمضان عید کی تیاری تو درکنار، گھر کا راشن پورا کرنا مسئلہ ہو رہا ہے۔‘
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے مزدور طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ وہ تمام لوگ جو روزانہ کے حساب سے محنت مزدوری کر کے روزی روٹی کمایا کرتے تھے، اب ہفتوں سے بیروزگار ہیں۔
پھولوں کی صنعت اس لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی صنعتوں میں سے ایک ہے، جس میں کاروبار مکمل ٹھپ ہے اور اس سے وابستہ تمام افراد بے روزگار ہیں۔

مقامی طور پر پھولوں کی کاشت اگست، ستمبر اور مارچ، اپریل میں ہوتی ہے۔ فوٹو (اے ایف پی)

کراچی میں پھولوں کی مانگ پوری کرنے کے لیے ملک بھر سے پھولوں کے کاشت کار اپنا مال یہاں بھجواتے ہیں، جبکہ بہت سے پھول درآمد کیے جاتے ہیں۔ تاہم مارچ کے وسط میں لاک ڈاؤن کے بعد سے کراچی میں پھولوں کا کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے، تقریبات پر پابندی کے بعد ہول سیلرز نے سڑک کنارے سٹالز اور کھوکھوں کے ذریعے اپنا مال نکالنے کی کوشش کی تھی مگر لاک ڈاؤن میں سختی کے بعد وہ سٹالز بھی بند کروا دیے گئے۔
شہزاد نے بتایا کہ تمام سٹالز بند ہونے کی وجہ سے ان کے پاس رکھے 70 ہزار مالیت کے درآمد شدہ پھول خراب ہوگئے۔
کراچی کے علاقے گڈاپ، اس کے علاوہ سندھ کے شہروں بدین اور حیدرآباد، پنجاب کے مختلف شہروں حتیٰ کہ مری سے بھی کاشت کار مقامی پھول جیسا کہ گلاب، گیندا، ٹیولپ اور لِلی کراچی بھجواتے ہیں، جبکہ دیگر اقسام درآمد کی جاتی ہیں۔ مقامی طور پہ پھولوں کی کاشت سال میں دو مرتبہ ہوتی ہے، اگست ستمبر اور مارچ اپریل میں جب موسم سخت نہ ہو۔
ضلع بدین میں پھولوں کی کاشت کار لینا تالپور کا کہنا تھا کہ 'حکومت کی طرف سے انہیں کچھ اقسام کے ہی پھول کاشت کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس کےعلاوہ دیگر اقسام کے بیج بھی درآمد نہیں کیے جا سکتے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'اگست ستمبر میں کاشت کیے جانے والے پھول نومبر دسمبر میں دستیاب ہوتے ہیں، جب شادیاں اور دیگر تقریبات سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کے بعد مارچ اپریل میں ہونے والی کاشت جون جولائی کے شادی سیزن کی ضروریات پوری کرتی ہیں۔

پھول بیچنے والوں کی بڑی تعداد بے روزگارہ ہوگئی ہے۔ فوٹو (اے ایف پی)

لینا تالپور نے بتایا کہ لاک ڈاؤن سے پیدا ہوئی بے یقینی کی صورت حال کی وجہ سے کاشت کاروں کو جون جولائی کے سیزن کے لیے آرڈرز نہیں ملے، جس وجہ سے مقامی طور پر پھولوں کی کاشت نہیں ہوئی اور اب عید کے بعد کراچی میں پھولوں کی قلت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
سندھ کے ایک اور کاشت کار زین شاہ، جو کراچی کو بڑی تعداد میں پھولوں کی سپلائی کرتے ہیں کا کہنا تھا کہ بڑی ایونٹ مینجمنٹ کمپنیوں نے اس بار آرڈرز نہیں دیے جس کے پیشِ نظر انہوں نے اُس پیمانے پر کاشت نہیں کی جیسے پہلے کی جاتی تھی۔ انہوں نے بھی اس بات کی تائید کی کہ عید کے بعد مارکیٹ میں پھولوں کی 80 فیصد کمی ہوگی۔
مارکیٹ میں پھولوں کی قلت کی بنیادی وجہ مقامی کاشت کاری میں متوقع کمی نہیں، بلکہ پھولوں کی درآمد کی مکمل معطلی ہے۔ کورونا وائرس سے دنیا بھر میں کاروبار پر اثر پڑا ہے اور بہت سی کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی ہیں۔ پورٹ کی بندش اور رسد پہ پابندی کی وجہ سے امپورٹرز نے مال نہیں منگوایا، اور جو منگوا چکے تھے انہیں نقصان کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے وہ مزید رسک لینے کو تیار نہیں۔
کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں پھولوں کے بیوپاری جلال حیدر نے اردو نیوز کو بتایا کہ لاک ڈاؤن سے کچھ دن قبل ان کا مال آیا تھا جو سراسر نقصان میں گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی نقصان کا تخمینہ تو نہیں لگایا، کیوں کہ حساب کتاب کی نوبت نہیں آئی۔ جلال نے بتایا کہ پھولوں کی درآمد کے آرڈرز تین ماہ پہلے سے دیے جاتے ہیں، تاہم اس وقت نہ تو عالمی منڈی میں کوئی آرڈرز لے رہا ہے نہ مقامی مارکیٹ میں کوئی ڈیمانڈ، ایسے میں قوی امکان یہی ہے کہ عید کے بعد کراچی میں امپورٹڈ پھول ناپید ہوں گے۔

رواں سال شب برات کے موقع پر اجتماع پر بھی پابندی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب، مقامی ریٹیلرز اور پھولوں کے سٹالز والے بھی مکمل نقصان کی کہانی سناتے ہیں۔ کراچی میں  پھولوں کی مشہور مارکیٹ گلبرگ میں ایک سٹال کے مالک جنید سراج کا کہنا ہے کہ ’شعبان میں ان کی خوب کمائی ہوا کرتی تھی، تمام فرقوں کے افراد ہی ان ایام میں عبادات کا اہتمام کرتے ہیں جس میں پھولوں کی خوب مانگ ہوتی ہے، جس میں سب سے اہم شبِ برات ہوا کرتی تھی، جب شہر بھر کے لوگ قبرستانوں کا رخ کرتے اور اپنے پیاروں کی قبروں پر فاتحہ خوانی اور گل پاشی کرتے ہیں۔‘
’صرف 14 شعبان کی رات کی آمدنی 40 ہزار تک ہو جایا کرتی تھی، مگر اس سال گھر میں بیٹھے رہے تو کمائی نہیں ہوئی۔‘
اس سال شبِ برات کے موقع پر حکومت سندھ کے حکم پر صوبے بھر میں دفعہ 144 نافذ تھی اور قبرستانوں میں داخلے پر بھی پابندی تھی جبکہ پھولوں کی تمام دکانیں بند تھیں حتیٰ کہ قبرستان کے اطراف گلاب کی پتیوں کے ٹھیلے کھڑے کرنے کی بھی ممانعت تھی۔
شہزاد اور جنید کا کہنا تھا کہ شبِ برات وہ موقعہ تھا جب مقامی دکانداروں کا خیال تھا کہ وہ اپنے نقصان کا کچھ ازالہ کرلیں گے، تاہم حکومتی پابندی کی وجہ سے کچھ کاروبار نہ ہو سکا۔ ایسے میں ہول سیلرز کے پاس رکھے تمام پھول خراب ہوگئے، درآمد شدہ پھول بھی ضائع ہوچکے۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ لوگوں کے درآمد شدہ قیمتی پھول چارہ مشین میں کاٹ کر جانوروں کو کھلا دیے گئے۔

شیئر: