Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’گیٹ کو ہاتھ لگائیں تو کہتے ہیں بیماری آئی‘

52 سالہ جنت بی بی جب کمالیہ میں اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتی تھیں تو اس وقت بھی ان پر اتنی پریشانی کبھی نہیں آئی تھی۔
مزدوری کم تھی، منشی اور مالک سے تو تکرار  بھی ہو جاتی تھی، لیکن کبھی یہ نہ ہوا کہ کسی نے اس کو اپنی گلی یا محلے میں ہی آنے سے منع کر دیا ہو۔
پھر کوئی 15 سال پہلے کسی نے اس کو اور اس کے خاوند کو کہا کہ اسلام آباد میں گھروں پر کام کرنے کے زیادہ پیسے ملتے ہیں۔ اور وہ اپنا سب کچھ سمیٹ کر اسلام آباد کی نئی تعمیر ہونے والی رہائشی کالونی پی ڈبلیوڈی میں آگئی۔
اب آج اتنے سالوں بعد جب اس کے ساتھ اس کی چار بیٹیاں بھی گھروں میں کام کرتی ہیں اور اس پر وہ وقت آیا ہے جب انسان زندگی بھر کی محنت کا پھل کھانے کا سوچتا ہے تو اس کی تمام ’باجیوں‘ نے نہ صرف اس کا اور اس کی بیٹیوں کا کام بند کر دیا ہے، بلکہ اس کو گھر کے دروازے پر ہاتھ لگانے سے بھی منع کر دیا ہے۔

کورونا سے مزدور اور گھروں میں کام کرنے والے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

اب جنت بی بی اسلام آباد کی ہاوسنگ سوسائیٹیوں کے بیچوں بیچ قائم اپنی ’جھگی بستی‘ میں ایک سونی چارپائی پر بیٹھی’اردونیوز‘ کو اپنی کہانی سناتے ہوئے انتہائی افسردہ ہے۔
وہ کہتی ہے: ’گیٹ پر جاتے ہیں تو کوئی ہاتھ نہیں لگانے دیتا، کہتے ہیں بیماری آئی، بیماری آئی۔ سڑک پر نکلو تووہ بھگا دیتے ہیں۔‘
کورونا وائرس کی وبا نے جہاں زندگی کے دیگر تمام شعبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے وہاں دیہاڑی دار مزدوروں اورگھروں میں کام کرنے والی ان خادماوں کے حالات پر بھی بہت زیادہ منفی اثرات چھوڑے ہیں۔
یہ شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بیگمات نے بھی اپنی ملازماؤں کو گھر سے نکال دیا ہے اور ان کو واپس آنے سے منع کر دیا ہے کیونکہ اس سے کوورونا وائرس ان تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔
کچھ لوگوں نے تو اپنے گھریلو ملازمین کو تنخواہیں اور راشن دے کر روانہ کیا ہے لیکن کچھ نے بعد میں آ کرحساب کتاب لینے کا کہا تھا۔ مگر اب کچھ ہاوسنگ سوسائیٹیوں نے ان کام کرنے والی خواتین اور مزدور طبقے کا داخلہ ہی بند کر دیا ہے تاکہ کورونا وائرس پھیلنے کے امکانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔ 
جنت بی بی اپنا حال سناتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’گلی سے نہیں گزرنے دیتے، گیٹ کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے، تنخواہیں نہیں ملیں، بچے ترس رہے ہیں، بھوک اور پیاس سے رو رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں۔‘
وہ اور اس کے ساتھ کی درجنوں کام کرنے والی خواتین راشن کی تلاش میں سڑکوں پر نکلتی ہیں تووہاں سکیورٹی گارڈ اور پولیس والے ان کو تنگ کرتے ہیں۔
 لہٰذا وہ اپنی جھگیوں میں اداس بیٹھے مستقبل کے بارے میں سوچ بچارکر رہے ہیں۔
ماہرین کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں  کورونا بحران طول پکڑتا ہے تو تقریبا ایک کروڑ 85 لاکھ نوکریاں ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔

پاکستان میں کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن جاری ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو روزگار کے مسائل کا سامنا ہے: فائل فوٹو اے ایف پی

 اسلام آباد میں مزدوروں کے متعلق تحقیق کرنے والے ادارے ’سینٹر فار لیبرریسرچ‘ کے بانی افتخار احمد نے ’اردو نیوز‘کو بتایا کہ پاکستان میں 85 لاکھ کے قریب گھریلو ملازمین ہیں جن میں سے تقریبا 51 لاکھ کی نوکریاں اس بحران کے نتیجے میں ختم ہونے کا خدشہ ہے۔
افتخار احمد کا کہنا ہے کہ ان 85 لاکھ میں سے تقریبا 75 فیصد خواتین ہیں۔
اب جنت بی بی جیسی ان کئی خواتین کو لگتا ہے کہ شاید یہ بحران انہیں واپس گاوں کی طرف لے جائے گا۔
 انہیں نہیں پتہ کہ یہ بیماری کتنا عرصہ رہے گی اور اس کے بعد انہیں یہاں کام ملے گا بھی یا نہیں۔
’ہم سوچ رہے ہیں کہ ہم غریب لوگ ہیں اپنے وطن (علاقے) کو واپس چلے جائیں۔ جب تک بیماری نہیں جائے گی ہم تو ادہر بھوکے رہ جائیں گے۔‘

پاکستان میں خاتون کی ایک بڑی تعداد دوسروں کے گھروں میں کام کر کے اپنا گزر بسر کرتی ہیں: فائل فوٹو اے ایف پی

ستم ظریفی یہ ہے کہ جنت بی بی اور ان کا قبیلہ اتنی آسانی سے واپس بھی نہیں جا سکتا۔ کیونکہ ایک تو راستے بند ہیں اور دوسرا ان کے پاس سامان واپس لے کر جانے کے لیے وسائل اور رقم بھی موجود نہیں ہے۔
’ہم جانے کا سوچتے بھی ہیں تو اس میں بھی ہمیں مالدار لوگوں یا حکومت کی مدد کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارے لیے سواری اور کرائے کا بندوبست کر کے دیں۔‘
یہ سوچ انہیں اور بھی غمگین کر دیتی ہے۔
’ایسا مشکل وقت میری زندگی میں کبھی نہیں آیا۔ میں نے اتنی پریشانی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔‘
نوکریاں تو ایک طرف، کورونا تو بہت سے غریب لوگوں کے سہانے سپنے بھی چھین رہا ہے۔
جنت بی بی کی ہمسائی 45 سالہ حفیظہ بی بی نے ماہ رمضان کے بعد اپنی نوجوان بیٹی سونیا کی شادی طے کر رکھی ہے۔

پاکستان کے کئی شہروں میں راشن کے لیے لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں: فائل فوٹو اے ایف پی

حفیظہ کا خیال تھا کہ رمضان کے دوران وہ اپنی ’باجیوں‘ سے تنخواہ کے ساتھ اضافی امداد بھی حاصل کرے گی تا کہ سونیا کی شادی اچھے طریقے سے ہو سکے اور اس کے لیے مناسب اور اس کی مرضی کے کپڑوں اور زیورات کا بندوبست کیا جا سکے۔
لیکن اب اس کی نوکری نہیں رہی۔ شادی کے لیے امداد تو ایک طرف اب اس کو یہ بھی نہیں معلوم کہ گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔
’گھر میں کوئی چیزنہیں ہے۔ نہ راشن مل رہا ہے نہ پیسے۔ بچوں کے لیے دودھ نہیں۔ جوان بچیاں گھر پر بیٹھی ہیں۔ معلوم نہیں ایسے میں سونیا کی شادی کیسے ہو گی؟‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: