Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شِر، سِر، اور سَر، یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے؟

ایک محفل میں دو طالبانِ اردو کے درمیان ہونے والے ادبی معرکہ کا مختصر احوال۔ فوٹو: اے ایف پی
یہ سماجی دُوری کا دَور ہے، ایسے میں پُرخلوص فاصلوں ہی سے ملنا بہتر ہے بصورتِ دیگر:
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے 
یہ نئے مزاج کا ’ قہر‘ ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو 
مگر یار لوگ اس نصحیت کو خاطر میں نہیں لاتے اور محفلیں جماتے ہیں۔ ایسی ہی ایک محفل میں دو طالبانِ اردو کے درمیان ہونے والے ادبی معرکہ کا مختصر احوال پیش خدمت ہے۔  
کھانے کے بعد جب قہوے کا دور چلا تو گفتگو کا رُخ سیاسی حالات کی طرف مُڑ گیا۔ ’جمال صاحب‘ نے قہوے کی چُسکی لی اور پروفیسرسحرانصاری کا شعر پڑھا:
جانے کیوں رنگِ بغاوت نہیں چھپنے پاتا
ہم تو خاموش بھی ہیں ’سَر‘ بھی جھکائے ہوئے ہیں
’احمد میاں‘ بولے: شعر میں جسے آپ نے ’سَر‘ پڑھا ہے اس کا درست تلفظ ’سِر‘ ہے۔ باقی شعراچھا ہے۔
یہ سننا تھا کہ ’جمال صاحب‘ اپنی جگہ سے اٹھے اور شیلف سے فیروز اللغات اٹھا لائے اور مطلوبہ صفحہ کھول کے ’احمد میاں‘ کے سامنے کر دیا۔ لغت میں واضح طورپر’سَر‘ لکھا تھا اور اسے فارسی لفظ بتایا گیا تھا، جب کہ معنی میں ’کھوپڑی، کسی چیز کے اوپر کا حصہ، چوٹی اورابتداء‘ درج تھا۔ ساتھ ہی بہت سے ذیلی معنی اور ’سَر‘ سے بننے والی درجنوں ترکیبیں اور بیسیوں محاورے بیان کیے گئے تھے۔
ہمارا خیال تھا کہ ’احمد میاں‘ نے غلط پنگا لے لیا ہے۔ آج معرکہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا۔ مگرہمارا یہ خیال اس وقت غلط ثابت ہوگیا جب ’احمد میاں‘ اپنی کار کی پچھلی نشست سے ’فرہنگ آصفیہ‘ نکال لائے۔
انہوں نے فاتحانہ اندازمیں جلد سوم کے ورق پلٹنا شروع کیے اور تھوڑی ہی دیر میں مطلوبہ صفحہ حاضرین کے سامنے کردیا ۔ اس میں صاف صاف ’سِر‘ لکھا تھا اور اس لفظ کو ہندی زبان سے متعلق بتایا گیا تھا، جب کہ معنی وہی تھے جو فیروز اللغات نے ’سَر‘ کے تحت درج کیے تھے۔ اس کے علاوہ ’سِر‘ کے تحت ’سِرچڑھنا، سِرپھٹنا، سِرکھانا اورسِرکٹنا‘ جیسی ڈھیروں تراکیب اور اُن کی سند میں درجنوں اشعار دیے گئے تھے۔
سچ پوچھیں تو ایک لمحے کو ہمارا ’سرچکرا بھی گیا اورہم فیصلہ نہیں کرسکے کہ جو چکرا رہا ہے وہ ’سَر‘ ہے یا ’سِر‘ ؟ 

’ فرہنگ آصفیہ کو فیروز اللغات پر ہراعتبار سے برتری حاصل ہے۔‘ فوٹو: اے ایف پی

بظاہر تو ’احمد میاں‘ نے معرکہ مار لیا تھا۔ ان کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔ اپنی اس کیفیت کے ساتھ وہ گویا ہوئے:’ فرہنگ آصفیہ کو فیروز اللغات پر ہراعتبار سے برتری حاصل ہے۔ ایسے میں یہ تسلیم کیا جائے کہ فیروز اللغات کے مؤلف سے غلطی ہوئی ہے اور درست لفظ  سین کے زیر کے ساتھ ’سِر‘ ہے‘۔ انہوں نے دوٹوک فیصلہ سنا دیا۔
دوسری طرف ’جمال صاحب‘ کی شان بے نیازی دوچند ہوچکی تھی۔ وہ مسکراتے ہوئے بولے: ذرا دیکھنا اس فرہنگ میں محاورہ ’ کاتا اور لے دوڑی‘ بھی درج ہے کہ نہیں ؟
مطلب؟ : احمد میاں ٹھٹکے۔
مطلب یہ کہ جب کوئی خواہ مخواہ جلدی بازی کا مظاہرے کرے تو اس موقع پر کہتے ہیں: ’ کاتا اور لے دوڑی‘۔ اوراس وقت یہ محاورہ آپ پر صادق آتا ہے۔
وہ کیسے؟ : احمد میاں کچھ کھسیانے ہوگئے۔ 
جمال صاحب گویا ہوئے: ’اسی فرہنگ آصفیہ میں ’سِر‘ اور اُس سے بننے والے محاورے، ضرب الامثال اور تراکیب جہاں ختم ہوتی ہیں، اُس کے فوراً بعد سین کے زبر کے ساتھ ’سَر‘ کا بیان شروع ہوتا ہے۔ اوراس مقام پر فرہنگ آصفیہ اورفیروز اللغات ’ایک صفحے‘ پر آجاتے ہیں۔ پھر انہوں نے ’احمد میاں‘ کے ہاتھ سے فرہنگ لے کر مطلوبہ مقام پردرج ’سَر‘ حاضرین کے سامنے پیش کردیا۔ یہاں بھی ہندی کے ’سِر‘ ہی کی طرح فارسی کے ’سَر‘ سے بننے والی تراکیب جیسے ’سَرفراز، سَربستہ، سَرچشمہ اور سَربکف کے ساتھ ساتھ بیسیوں محاورے ، ضرب الامثال اور اشعار بطورسند درج تھے۔

سنسکرت اور فارسی ماجائی بہنیں ہیں اور دونوں میں سینکڑوں الفاظ مشترک ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ادھر ’احمد میاں‘ کا یہ حال کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ ایسے میں ہم نے صورتحال کونارمل کرنے کے لیے پوچھا: ’جمال صاحب‘ چکر کیا ہے ۔۔۔ اردو میں درست لفظ ’سَر‘ ہے  یا ’سِر‘ ؟
بولے: دونوں لفظ درست ہیں۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ سنسکرت اور فارسی ماجائی بہنیں ہیں۔ اس لیے ان دونوں میں سینکڑوں الفاظ مشترک ہیں۔ البتہ کہیں کہیں لہجے کا اختلاف ہوجائے تو یہ فطری بات ہے، مثلاً سنسکرت کا اُشٹر(اونٹ)، ماتر(ماں) اوربھراتر(بھائی) فارسی میں بالترتیب ’شُتر، مادر اور برادر‘ ہے۔ اسی طرح سنسکرت کا ’شِر‘ ہندی میں ’سِر‘ اور فارسی میں ’سَر‘ ہے۔   
اردو زبان میں ’سَر‘ فارسی کی راہ سے آیا ہے۔’سَر‘ جسم کا سب سے بلند حصہ ہوتا ہے اور انسان کی پانچ حواس (دیکھنا، سُننا، سونگھنا، چکھنا اور چُھونا) میں سے چار کا براہِ راست تعلق ’سَر‘ سے ہے۔ اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر ’سربلند اور سرنگوں ‘ جیسی تراکیب پیدا ہوئی ہیں۔ پھر اس بلندی اور شرف کی نسبت سے بننے والی تراکیب ’سَربراہ‘ اور ’سَردار‘ پر بھی غور کرو بات آسانی سے سمجھ آجائے گی۔
یہی سَر انگریزی میں بھی ’sir‘ ہے جو ’جناب‘ کے معنی میں بولا  ہے۔ اس کی ایک مثال تاج برطانیہ کی جانب سے دیا جانے والا ’سر‘ کا خطاب ہے۔ جب کہ ’سَر‘ بمعنی عضو بدن انگریزی میں ’head‘ ہے۔ اسی سے اصطلاحی معنی پیدا ہوئے اور ادارے کے سربراہ کو بھی ’head‘ کہتے ہیں۔ پھر ’ہیڈ ماسٹر‘ اور ’ہیڈ آفس‘ کی ترکیبیں تو اردو بول چال کا حصہ بن چکی ہیں۔
اب واپس آجاؤ سنسکرت پر کہ یہ زبانوں کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ پہلا بھی عرض کیا تھا سنسکرت میں ’سَر‘ کو ’شِر‘ کہتے ہیں۔ اسی ’شِر‘ کی رعایت سے ’جناب‘ اور ’محترم‘ کے لیے بالترتیب ’شری‘ اور ’شری مان‘ کے الفاظ آتے ہیں۔

’رئیس‘ اپنی قوم ، قبیلے یا ریاست کا سربراہ ہوتا ہے. فوٹو: اے ایف پی

اتنا کہہ کر ’جمال صاحب‘ نے ’احمد میاں‘ کی خالی ہوجانے والی پیالی میں قہوہ انڈیلا اور بولے تم بھی سوچ رہے ہوگے کہ اِس نے تو ’سرکھانا‘ شروع کردیا ہے۔ بس اس حوالے آخری بات اورسن لو اور وہ یہ کہ لفظ ’سَر‘ کو الٹا کر پڑھیں تو یہ ’رس‘ بن جاتا ہے۔ یہی ’رس‘ عربی زبان کا ’راس‘ ہے جو انسان اور جانور کے ’سَر‘ کے لیے بولا جاتا ہے۔ پھر دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح عربی میں بھی اس ’راس‘ سے لفظ ’رئیس‘ بمعنی ’سربراہ‘ بنا ہے، یوں مختلف سطحوں کے ذمہ داروں سے لے کر حکمرانوں تک ’رئیس الادارہ‘، ’رئیس الجامعہ‘ اور ’رئیس المملکت‘ کی سی تراکیب پیدا ہوگئیں۔ 
پر رئیس تو مال دار کوکہتے ہیں؟ ۔۔۔ ہم نے سوال داغا
بولے: چوں کہ ’رئیس‘ اپنی قوم ، قبیلے یا ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اور اس کے پاس اقتدار اور اختیار ہوتا ہے جو مال و اسباب کے حصول کا ذریعہ  بنتا ہے یوں مجازی طور پر مال دار کو بھی ’رئیس‘ کہتے ہیں۔ اب ’اس راس اور رئیس‘ کے حوالے سے میرانیس کا شعر سنو اور ہمیں اجازت دو: 
عملِ خیر سے بہکا نہ مجھے او ابلیس
یہی کونین کا مالک ہے یہی ’راس و رئیس
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: