Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ویکسین کی تیاری کے لیے کلینیکل ٹرائلز کیسے ہوتے ہیں؟

پوری دنیا میں سائنسدان کورونا وائرس کے علاج کے لیے ویکسین کی تیاری میں مصروف ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)
دنیا بھر میں سائنسدان کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کے لیے تحقیق میں مصروف ہیں اور کئی ممالک میں کورونا وائرس کی ویکسین کے لیے کلینیکل ٹرائلز کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے۔
حال ہی میں چینی کمپنی نے کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے لیے کلینیکل ٹرائلز کے لیے پاکستان کو بھی پیشکش کی ہے جس کے لیے اب قواعد و ضوابط طے کیے جا رہے ہیں۔ 
پاکستان میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کے ایک اعلی عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ نیشنل ہیلتھ انسٹیوٹ چینی کمپنی کے کورونا وائرس کی ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کا جائزہ لے رہا یے جس میں پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل سے بھی تجاویز لی جائیں گی جس کے بعد ضابطہ کار بنانے کے بعد ڈرگ ریگولیٹری اٹھارٹی اس کی منظوری دے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل ڈینگی کی ویکسین رجسٹریشن کے لیے آئی تھی لیکن دوسرے ممالک میں اس ویکسین کے حوالے سے تحفظات سامنے آئے تھے جس میں ویکیسن کے انسانی صحت پر
 اثرات کا خدشہ موجود تھا جس کی وجہ سے اس ویکسین کی منظوری نہیں دی گئی تھی ۔ انہوں نے بتایا کہ ویکسین کی تیاری کا مرحلہ طویل ہوتا ہے جس میں بہت سی احتیاط کرنا ہوتی ہیں کیونکہ یہ خطرناک معاملہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

 

پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام کے مطابق قومی ادارہ صحت اور چینی کمپنی کے درمیان قواعد و ضوابط طے کیے جائیں گے جس میں کلینکل ٹرائلز کے پروٹوکول کے حوالے سے معاہدہ طے پائے گا۔

ویکیسین تیار کرنے کے لیے کلینیکل ٹرائلز کیسے کیے جاتے ہیں؟

شفا انٹرنشینل اسلام آباد کے امیونولوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اطہر نیاز رانا نے اردو نیوز کو بتایا کہ  ویکسین تیار کرنے کے پانچ سے چھ مرحلے ہوتے ہیں جس میں کلینیکل ٹرائلز کے مرحلے کو انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔
’کلینکل ٹرائلز سے پہلے پری کلینکل مرحلہ ہوتا ہے جس میں تحقیق کی جاتی ہے کہ وائرس کس نوعیت کا ہے اور پھر لیبارٹری ٹیسٹ وغیرہ کرنے کے بعد خاص کیمیکل تیار کیا جاتا ہے جس کی منظوری کے بعد کلینیکل ٹرائلز کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر اطہر نیاز رانا کہتے ہیں چونکہ یہ عالمی ایمرجنسی کی صورتحال ہے اس لیے کلینکیل ٹرائلز کے پروٹوکول بھی اب تبدیل کرنا ہوں گے۔ ’اس مرحلے میں عمومی طور پر سب سے پہلے چھوٹے اور پھر بڑے جانوروں پر ویکسین کے استعمال کے نتائج کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کے بعد چند صحت مند رضاکاروں پر ویکسین استعمال کی جاتی ہے اور نتائج کا جائزہ لیا جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر اطہر نیاز رانا کے مطابق کلینیکل ٹرائل کے تیسرے مرحلے میں ویکسین کو بڑے پیمانے پر تجربہ کیا جاتا ہے،‘اس میں سیمپل سائز کو بڑھایا جاتا اور ایسی جگہ پر جہاں وائرس کا پھیلاؤ ہو بڑے پیمانے پر لوگوں میں ویکسین کا  استعمال کیا جاتا ہے اور نتائج حاصل کیے جاتے ہیں لیکن کورونا وائرس چونکہ دنیا بھر میں پھیل چکا ہے اس لیے یہ مرحلہ کہیں بھی سر انجام دیا جاسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ویکسین پانچ سے چھ مرحلوں میں تیار کی جاتی ہے (فوٹو: روئٹرز)

کلینیکل ٹرائل کے چوتھے مرحلے میں ان تمام لوگوں کا جائزہ لیا جاتا ہے جن پر ویکسین استعمال کی گئی ہو۔ ’اس مرحلے میں دیکھا جاتا ہے کہ جن لوگوں پر ویکسین کا استعمال کیا گیا ہے وائرس کے خاتمے کے علاوہ ان کے صحت پر دیگر کیا اثرات رونما ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر اس مرحلے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے لیکن عالمی ایمرجنسی میں اس مرحلے کو کم وقت دیا جاسکتا ہے۔‘

کلینیکل ٹرائلز مکمل ہونے میں کتنا وقت درکار ہوگا؟

قومی ادارہ صحت کے شعبہ تحقیق کے ڈاکٹر اعجاز نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے زمانے میں کسی بھی ویکسین کے تیار ہونے میں دس سے پندرہ سال لگ جاتے تھے لیکن آج کل جدید طریقوں کو استعمال کیا جارہا ہے تاکہ جلد از جلد نتائج سامنے آ سکیں۔‘
انہوں نے کہا کہ سب سے جدید طریقہ’موڈرنو پلیٹفارم‘ ہے جس کے تحت جلد از جلد ویکسین کی تیاری ممکن بنائی جا رہی ہے اور اس ٹیکنالوجی کے تحت کینسر کی ویکیسن چالیس روز کے اندر تیار کی گئی یے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس ٹیکنالوجی کے تحت بھی کورونا وائرس کی ویکسین تیار ہونے میں کم از کم چار ماہ لگ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے بھی شرط یہ ہے کہ سب کچھ معمول اور تواقعات کے مطابق ہو اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر اس پر زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔

اطہر نیاز کے مطابق اگر رواں سال کورونا وائرس کی ویکسین نہ بن سکی تو پھر شاید ایک اور ویکسین بھی تیار کرنا ہوگی (فوٹو: ٹوئٹر)

شفا انٹرنشینل کے ڈاکٹر اطہر نیاز رانا کے مطابق عالمی وبائی صورتحال کی وجہ سے ویکسین تیار کرنے کے پروٹوکولز میں کافی حد تک تبدیلی لائی جائے گی لیکن سب کچھ تیزی سے کرنے کے بعد بھی چار سے چھ ماہ کا وقت درکار ہوگا۔ ‘تمام چیزوں کو تیزی سے کیا جائے تو  بھی کلینیکل ٹرائلز کے لیے کم از کم تین ماہ کا وقت درکار ہوگا۔
انہوں  نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر رواں سال کورونا وائرس کی ویکسین نہ بن سکی تو پھر شاید ایک اور ویکسین بھی تیار کرنا ہوگی۔ ‘وائرس عمومی طور پر ایک سیزن کے بعد اپنی شکل اور ہیت تبدیل کر لیتے ہیں، ایسی صورت میں یہ ایک اور ویکسین تیار کرنا ہوگی لیکن اس میں وقت نسبتا کم درکار ہوگا کیونکہ کورونا وائرس پر بہت تحقیق ہو چکی ہوگی۔
’کسی بھی ویکسین کی تیاری میں کلینکل ٹرائلز کے مرحلے بعد ‘اپررول سٹیج’ ہوتی ہے جس میں تمام نتائج کی روشنی میں ویکسین کی تیاری کی منظوری دی جاتی ہے اور پھر کوالٹی کنٹرول کے بعد ویکسین بنائی جاتی ہے۔‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: