Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'کورونا سورج کی شعاعوں میں تیزی سے ختم ہوتا ہے'

درجہ حرارت یا نمی میں اضافہ جراثیم کو پھلنے پھولنے نہیں دیتا۔ فوٹو اے ایف پی
 امریکی سائنسدانوں کے مطابق سورج کی روشنی کورونا وائرس کو جلدی تباہ کر دیتی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک امریکی اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے کہا ہے کہ سرکاری سائنسدانوں کی تحقیق سے موسم گرما میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کمی آنے کی امید پیدا ہوئی ہے، تاہم تحقیقاتی رپورٹ دیگر سائنسدانوں کے تجزیے کے لیے فی الحال جاری نہیں کی گئی۔ 
امریکی محکمہ برائے ہوم لینڈ سکیورٹی کے مشیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ویلیم برائن نے وائٹ ہاؤس میں پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعیں پیتھوجن یا مرض پھیلانے والے جرثومے کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جس سے وائرس کے جراثیم کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملتا۔ 
تحقیق کے مطابق سورج کی روشنی ہوا میں اور اشیا کی سطح پر موجود جراثیم کے ذرات کو مارنے کی طاقت رکھتی ہے۔
ویلیم برائن کا کہنا تھا کہ درجہ حرارت یا نمی میں اضافہ بھی جراثیم کے پھلنے پھولنے کے لیے سازگار ماحول نہیں پیدا کرتا۔
امریکی مشیر ویلیم برائن نے تحقیق کے حوالے سے کہا کہ بیس فیصد نمی اور اکیس سے چوبیس سلسیس ڈگری کے درجہ حرارت کے دوران وائرس صرف اٹھارہ گھنٹے کے لیے مؤثر رہتا ہے، وہ بھی دروازے کے ہینڈلز اور سٹین لیس سٹیل سے بنی ہوئی اشیا پر، جبکہ ہوا میں موجود جراثیم کے ذرات ایک گھنٹے کے لیے زندہ رہتے ہیں۔
 لیکن نمی کا تناسب اسی فیصد ہونے پر، وائرس چھ گھنٹوں کے لیے مؤثر ہوتا ہے، اور اگر اس کے ساتھ سورج کی روشنی بھی شامل ہو جائے تو دو منٹ کے بعد وائرس مر جاتا ہے۔ جبکہ ہوا میں موجود جراثیم کے ذرات صرف ڈیڑھ منٹ کے لیے زندہ رہتے ہیں۔

اسی فیصد نمی ہونے پر، وائرس چھ گھنٹوں کے لیے مؤثر ہوتا ہے۔ فوٹو اے ا یف پی

امریکی تحقیق کا فی الحال دیگر سائنسدانوں نے جائزہ نہیں لیا اس لیے ماہرین کے لیے کوئی بھی حتمی نتیجہ اخذ کرنا فی الحال قبل از وقت ہوگا۔
اس سے قبل بھی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے وائرس کے جراثیم مرتے ہیں اور ان کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملتا۔ 
امریکی ٹیکساس یونیورسٹی کے بائیولوجیکل سائنسز کے چیئرمین بینجمن نیومن نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا امریکی سائنسدانوں کے تجربے میں استعمال کی گئی شعاعوں کی نوعیت ویسی ہی ہے جو گرمیوں کی سورج کی روشنی کی ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا یہ جاننا ضروری ہے کہ وائرس کے کونسے پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے تحقیقاتی ٹیم نے نتائج اخذ کیے ہیں۔
مشیر ویلیم برائن نے متنبہ کیا کہ وائرس کے جراثیم کے پھیلاؤ میں کمی آنے کا مطلب یہ نہیں کہ وائرس مکمل طور پر ختم ہوجائے گا اور سماجی فاصلہ رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی، ایسا سمجھنا غیر ذمہ دارانا ہوگا۔
اس سے پہلے بھی سائنسدان اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ وائرس ٹھنڈے اور خشک موسم میں پھلتا پھولتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ جنوبی نصف کرہ پر واقع ممالک جہاں موسم گرم اور نمی کا تناسب زیادہ ہے وہاں کورونا وائرس تیزی سے نہیں پھیلا۔ اس کی مثال آسٹریلیا میں ملتی ہے جہاں سات ہزار افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے اور 77 ہلاکتیں واقع ہوئیں۔ جبکہ یہ تعداد شمالی نصف کرہ پر واقع ممالک میں کئی گنا زیادہ ہے۔

شیئر: