Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یورپ میں پاکستانی شہری مشکل میں

یورپی ممالک میں کم و بیش 25 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)
پنجاب کے ضلع جہلم سے تعلق رکھنے والے مبشر سلطان چار سال قبل ایک ایجنٹ کو پیسے دے کر یونان پہنچے تھے۔ ابتدا میں دوستوں کے تعاون سے کام مل گیا اور سلسلہ چل نکلا لیکن پھر وہاں کے معاشی حالات میں خرابی کے باعث گزارا کرنا مشکل ہونے لگا۔
چند ماہ قبل انھیں ایک اچھی جگہ پر کام مل گیا تو ان کے دن بدلنا شروع ہوئے۔ گھر والے بھی خوش تھے کہ اب تواتر سے پیسے آیا کریں گے۔ لیکن کورونا وائرس نے ان کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔
یورپ میں لاک ڈاؤن کے باعث مبشر کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے اور اب وہ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد نئے کام کے منتظر ہیں جو تلاش کرنے میں نہ جانے کتنا وقت لگے گا۔
یورپی ممالک میں کم وبیش 25 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں۔ ان میں تقریباً آدھے برطانیہ جبکہ باقی فرانس، سپین، اٹلی، جرمنی، پرتگال، بیلجیئم، ڈنمارک اور دیگر ممالک میں رہتے ہیں۔
ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان پاکستانیوں کی بھی ہے جو وہاں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں اور قانونی رہائش اختیار کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔
سب سے زیادہ غیر قانونی پاکستانی یونان میں ہی مقیم ہیں بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ یونان پہنچنے والے پاکستانی یورپ کے دیگر ممالک کا رخ کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔
یورپ میں مقیم زیادہ تر پاکستانی فیکٹریوں، ریستورانوں، کھیتی باڑی، باغات یا دیگر شعبوں میں کام کرتے ہیں۔
زیادہ تر شعبوں میں مقررہ تنخواہ کے بجائے دیہاڑی ملتی ہے اور پکی ملازمت بھی نہیں ہوتی۔ کچھ پاکستانی اپنے چھوٹے موٹے کاروبار بھی کرتے ہیں جن میں ٹیک اویز اور ڈیلیوریز شامل ہیں۔ ایک بڑی تعداد ٹیکسی سروس سے بھی منسلک ہے۔
کورونا وائرس کے باعث جہاں کئی یورپی ممالک کی حکومتوں کے اقدامات کے باعث ان کے شہریوں کو اس طرح کے مالی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس سے ترقی پذیر ممالک کے عوام متاثر ہوئے ہیں تاہم یورپ کے کئی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 

کورونا وائرس کے باعث اٹلی میں 70 فیصد فیکٹریاں مکمل طور پر بند ہو گئیں (فوٹو: ٹوئٹر)

یونان میں مقیم مبشر سلطان نے بتایا کہ 'جب لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تو کچھ پیسے میرے پاس تھے جبکہ ڈیرے پر ساتھ رہنے والے دوستوں کے پاس بھی پیسے تھے۔ خیال تھا کہ چند دن کی بات ہے اس لیے معمول کے مطابق ہی خرچہ کرتے رہے۔ 20، 25 دن بعد ہم چاروں کی جیبیں خالی ہوگئیں۔ گذشتہ 15 دن سے ہم اپنے دوستوں سے ادھار مانگ کر گزارا کر رہے ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ '42 دن بعد لاک ڈاؤن میں کچھ نرمی ہوئی ہے۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات بہتر ہونے پر کام بھی مل جائے گا۔ اب تو جن سے پیسے ادھار لیے تھے وہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا ہاتھ بھی تنگ ہو چکا ہے۔ غیر قانونی ہونے کی وجہ سے حکومتی امداد بھی نہیں مل سکتی۔'
یاسر اقبال سپین میں موبائل اور کمپیوٹر ریپئرنگ کا کام کرتے ہیں اور ان کی اپنی دکان ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دکان ایک مہینے سے بھی زیادہ عرصہ بند رہی۔ اس وجہ سے ان کو وہاں پر مالی مشکلات تو ہوئیں لیکن سرکاری امداد کے باعث سلسلہ چلتا رہا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'اس ایک مہینے میں تمام بچت خرچ ہوگئی ہے۔ پاکستان میں کوٹھی پر کام جاری تھا۔ جو پیسے وہاں بھیجنے تھے وہ لگ گئے ہیں۔ اب مجبوراً وہاں کام روکنا پڑ گیا ہے۔ گاؤں میں مکان کا کام شروع کر کے روکنا بے عزتی والی بات ہوتی ہے۔ اب مجھے ڈبل محنت کرنا پڑے گی۔‘
اٹلی میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد فیکٹریوں یا پھر زرعی شعبے میں کام کرتی ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں فیکٹری انتظامیہ جب اپنے ملازمین کو گھروں میں بیٹھنے کا کہتی ہے تو مقامی قوانین کے تحت تنخواہ کا 80 فیصد حکومت جبکہ 20 فیصد فیکٹری ادا کرتی ہے۔

اٹلی میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد فیکٹریوں یا پھر زرعی شعبے میں کام کرتی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

کورونا وائرس کے باعث اٹلی میں 70 فیصد فیکٹریاں مکمل طور پر بند ہو گئیں تو ہزاروں پاکستانیوں کو بھی گھروں میں بیٹھنا پڑا مگر ہنگامی صورت حال میں حکومت اور فیکٹری انتظامیہ نے تنخواہیں ادا نہیں کیں جس سے پاکستانیوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ناظم حسین جو کہ اٹلی کے شہر بلونیہ میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'اٹلی میں 15 سال سے رہ رہا ہوں۔ بے روزگاری بھی دیکھی ہے اور قرض بھی کئی بار لیا ہے۔ جو مشکل وقت اب دیکھ رہے ہیں ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ حکومت مشکل وقت میں اپنے شہریوں کو کچھ نہ کچھ سہارا دے لیتی تھی۔‘
ان کے مطابق ’اگرچہ یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی مؤخر ہوئی ہے لیکن ادا تو کرنے ہی پڑیں گے۔ گھر میں بیٹھ کر کتنا عرصہ گزارا کیا جا سکتا ہے۔ اگر فیکٹریاں کھل جائیں تو کچھ مشکل حل ہو جائے گی۔‘
یورپ میں مقیم پاکستانیوں میں اکثر وطن واپس آتے رہتے ہیں۔ جب وہ آتے ہیں تو اپنے ساتھ اچھے خاصے پیسے بھی لاتے ہیں۔
کورونا وائرس کے باعث فلائٹ آپریشن معطل ہوا تو ان کا قیام بھی طویل ہوگیا۔ پیسے بھی ختم ہوگئے ہیں تو ان کو واپس جانے کی جلدی ہے لیکن خصوصی پروازوں کے مہنگے ٹکٹس خریدنے کی سکت بھی نہیں رہی۔
سپین سے آئے مطلوب حسین نے بتایا کہ ایک تو کام چھوڑ کر پاکستان آنے کا نقصان ہوا۔ جو تھوڑا بہت سلسلہ چل رہا تھا لاک ڈاؤن نے کسر پوری کر دی۔
’اب حالات یہ ہیں کہ جو ٹکٹ لے کر آئے تھے وہ کینسل ہو چکے ہیں۔ ایئر لائن والے کہتے ہیں جولائی تک انتظار کریں۔ اتنے پیسے نہیں ہیں کہ پی آئی اے کی خصوصی پرواز میں جا سکیں۔‘

شیئر: