Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سب سے پہلے ڈینیئل پرل کے اغوا کو ثابت کرنا ہوگا‘

سندھ حکومت نے ٹرائل کورٹ کا ریکارڈ جمع کرانے کے لیے مہلت مانگ لی (فوٹو: ٹوئٹر)
پراسیکیوٹر جنرل سندھ کی جانب سے ان خبروں کی تردید کی گئی ہے جس میں ڈینیئل پرل قتل کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرنے کی درخواست مسترد کرنے کا ذکر کیا گیا تھا۔ 
پراسیکیوٹر جنرل سندھ کی جانب سے جاری کردہ تریدی بیان میں کہا گیا ہے کہ قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے خبروں کے برعکس حکومت سندھ کے وکیل فاروق نائیک نے سپریم کورٹ سے کچھ مخصوص دستاویزات ریکارڈ پر لانے کے لیے وقت مانگا ہے۔ ان کی یہ استدعا عدالت نے منظور کر لی تھی۔ 
بیان کے مطابق حکومت سندھ یہ دستاویزات فوری طور پر پیش کر رہی ہے اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے معطلی کے لیے فوری سماعت کی درخواست بھی جمع کروا رہی ہے۔ 
خیال رہے کہ پیر کو اسلام آباد میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے امریکی صحافی ڈینئل پرل کیس کی سماعت کی تھی۔  
اردو نیوز کے نامہ نگار بشیر چوہدری کے مطابق دوران سماعت سندھ حکومت کی جانب سےفاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے۔ انھوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سندھ حکومت نے انھیں خصوصی پراسیکیوٹر مقرر کیا ہے۔
جسٹس منظور ملک نے سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس ٹرائل کورٹ میں پیش کردہ تمام ریکارڈ موجود ہے؟ ہمیں مکمل ریکارڈ فراہم کیا جائے۔ میں سارے ریکارڈ کو دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ تمام نکات سمجھ سکوں۔
انہوں نے فاروق نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تفصیلی ریکارڈ عدالت میں جمع کروائیں پھر کیس سنیں گے۔
نامہ نگار کے مطابق جسٹس منظور ملک کی جانب سے ریکارڈ طلبی پر سندھ حکومت نے ٹرائل کورٹ کا ریکارڈ جمع کرانے کے لیے مہلت مانگ لی۔ عدالت نے مہلت دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔ 
جسٹس منظور ملک نے ریمارکس میں کہا کہ سب سے پہلے ڈینیئل پرل کے اغوا کو ثابت کرنا ہوگا۔ شواہد سے ثابت کرنا ہوگا کہ مغوی ڈینیل پرل ہی تھا۔ سندھ حکومت کا دعویٰ ہے کہ راولپنڈی میں سازش تیار ہوئی۔ 
راولپنڈی میں کیا سازش ہوئی یہ بھی شواہد سے ثابت کرنا ہوگا۔ جائزہ لینا ہوگا اعترافی بیان اور شناخت پریڈ قانون کے مطابق تھی یا نہیں؟ حقائق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کے ساؤتھ ایشیاء بیورو چیف ڈینیئل پرل کو 2002 میں کراچی میں اغواء کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

خیال رہے اس سال اپریل میں سندھ ہائی کورٹ نے 18 سال بعد امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کے لیے کام کرنے والے صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کیس کے چار ملزمان کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے تین ملزمان کو بری اور مرکزی ملزم عمر سعید شیخ کی سزائے موت کو ختم کر کے سات سال قید میں بدلنے کا حکم صادر کیا تھا۔
امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کے ساؤتھ ایشیاء بیورو چیف ڈینیئل پرل کو 2002 میں کراچی میں اغواء کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ اس وقت کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے کیس کے مرکزی ملزم برطانوی شہری عمر شیخ کو سزائے موت اور ان کے تین ساتھیوں فہد ندیم، سلمان ثاقب اور شیخ محمد علی کو عمر قید کی سزا کے علاوہ فی کس پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
ملزمان کی جانب سے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی مگر معاملہ طوالت کا شکار رہا اور 10 سال اس کیس کی سماعت نہ ہوسکی۔

شیئر: