Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈینیئل پرل کے قتل پر 'انصاف' کا مطالبہ

ڈینیئل پرل کو 2002 میں کراچی میں اغوا کے بعد قتل کیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ 'ڈینیئل پرل ایک مایہ ناز صحافی تھے، امریکہ ان کی خدمات کا معترف ہے اور ان کے سفاکانہ قتل پر انصاف کا مطالبہ کرتا ہے۔'
جمعے کے روز اپنی ٹویٹ میں مائیک پومپیو نے مزید کہا کہ 'امریکہ ڈینیئل پرل کو نہیں بھولے گا۔'
اس سے پہلے جمعرات کو امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'ڈینیئل پرل کیس کے مجرموں کی سزائیں واپس لینا دہشت گردی کے متاثرین کی تضحیک کے مترادف ہے۔' سندھ حکومت نے ڈینیئل پرل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ وفاقی وزارت داخلہ نے کیس کے تمام ملزمان کو نقص عامہ کے قانون کے تحت تین ماہ کے لیے حراست میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

 

جمعرات کو سندھ ہائی کورٹ نے 18 سال بعد امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کے لیے کام کرنے والے صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کیس کے چار ملزمان کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے تین ملزمان کو بری اور مرکزی ملزم عمر سعید شیخ کی سزائے موت کو ختم کر کے سات سال قید میں بدلنے کا حکم صادر کیا تھا۔
وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 'فوجداری مقدمات کے تناظر میں اگرچہ یہ ایک صوبائی معاملہ ہے تاہم وفاقی حکومت نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ معاملہ سندھ حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے۔'
وزارتِ داخلہ کے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ 'ڈینیئل پرل کیس میں عدالت عالیہ سندھ کے حالیہ فیصلے کے خلاف اپیل آئندہ ہفتے سپریم کورٹ میں دائر کی جائے گی، اس معاملے میں سندھ حکومت کو بہترین وسائل بروئے کار لانے کا کہا گیا ہے۔'
امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے لیے بیورو چیف ڈینیئل پرل کو 2002 میں کراچی میں اغوا کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ اس وقت کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے کیس کے مرکزی ملزم برطانوی شہری عمر سعید شیخ کو سزائے موت اور ان کے تین ساتھیوں فہد ندیم، سلمان ثاقب اور شیخ محمد علی کو عمر قید کی سزا کے علاوہ فی کس پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
ملزمان کی جانب سے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی مگر معاملہ طوالت کا شکار رہا اور 10 سال اس کیس کی سماعت نہ ہوسکی۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمر شیخ کو سزائے موت سنائی تھی (فوٹو: سوشل میڈیا)

ملزمان کے وکیل رائے بشیر اور خواجہ نوید احمد نے دورانِ سماعت عدالت کے سامنے موقف اپنایا کہ اس کیس کے تمام گواہ پولیس اہلکار ہیں اور استغاثہ ملزمان کے خلاف جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ وکیل صفائی کا مزید کہنا تھا کہ 'اس واقعے کا کوئی چشم دید گواہ بھی موجود نہیں۔'
عدالت نے ملزمان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے عمر سعید شیخ کے خلاف سزائے موت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سات سال قید کا حکم دیا جبکہ دیگر تین ملزمان جن کے خلاف عمر قید کی سزا کا حکم تھا، انہیں باعزت بری کرنے کا حکم جاری کیا۔

وفاقی حکومت نے عمر سعید شیخ کی بریت کے عدالتی فیصلے پر تشویش ظاہر کی (فوٹو: فیس بک)

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مرکزی ملزم عمر شیخ 18 سال سے پابند سلاسل ہیں اور سات سال قید کی سزا پہلے ہی پوری کر چکے ہیں لہٰذا عدالتی فیصلے کی روشنی میں ان سمیت دیگر ملزمان نے رہا ہونا تھا، تاہم ڈینیئل پرل اغوا اور قتل کیس کے تمام ملزمان کے خلاف نقص عامہ کے قانون (ایم پی او) کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں اپیل دائر ہونے تک تین ماہ کے لیے نظربند کر دیا گیا ہے۔
وفاق نے سندھ حکومت کو انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے اور اس معاملے پر اٹارنی جنرل آف پاکستان سے بھی مشاورت کرنے کا کہا ہے۔ وزارت داخلہ نے اس معاملے پر موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ 'حکومت پاکستان دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے اور تمام قانونی ضابطے پورے کرنے کے لیے پرعزم ہے۔'

شیئر: