سعودی عرب اور جاپان کے پین جینوم سیمپلز پر کی گئی ایک تحقیق سے ان دونوں قوموں کے بارے میں اہم جینیاتی معلومات سامنے آئی ہیں۔
ٹفٹس میڈیکل سینڑ کے پروفیسر ملک عبدالثقافی اور اس تحقیق کی اہم مصنفین میں ایک ہیں، نے کہا کہ’ تقریباً 12 فیصد مریض جنہیں جینیاتی بیماریاں ہوتی ہیں، ان کی صحیح تشخیص نہیں ہو پاتی، کیونکہ جنیوم کا جو سیمپل عام طور پر استعمال ہوتا ہے، وہ ان کی آبادی کے جینیاتی فرق کو ظاہر نہیں کرتا۔‘
مزید پڑھیں
-
سعودی ماہرین نے جنیاتی بیماری کا نیا سینڈروم دریافت کرلیاNode ID: 824266
-
سعودی عرب میں دستکاری ورثے کی بحالی کے لیے ریسرچ گرانٹسNode ID: 892491
انہوں نے کہا کہ ’جب مخصوص آبادیوں کے لیے پین جینوم کا گراف تیار کیا جاتا ہے تو اس سے جینیاتی فرق کی نشاندہی بہتر ہوتی ہے اور ایسے مریضوں کی تشخیص میں بھی مدد ملتی ہے جن کی بیماری پہلے سمجھ میں نہیں آتی تھی۔‘
پین جینوم ایک ایسا ریفرنس ٹول ہے جس کی مدد سے ہم ایک فرد یا کسی گروپ کے ڈی این اے کا بہتر انداز میں مطالعہ کر سکتے ہیں۔
جس طرح ایک نقشہ کسی شخص کی جگہ کو اُس کے اردگرد کے علاقے کے مطابق دکھاتا ہے، اسی طرح پین جینوم سائنسدانوں کو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ کسی فرد کے جینز ایک پوری آبادی میں پائے جانے والے جینیاتی فرق کے مقابلے میں کیسے ہیں۔
عبدالثقافی نے کہا کہ ’وہ کئی سال سے سعودی جینوم پر کام کر رہیں، اس پروجیکٹ کا حصہ بننا ان کے لیے ایک اہم قدم ہے، تاکہ جینیات کے شعبے میں مختلف قوموں کی نمائندگی کو بہتر بنایا جا سکے، اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ درست اور ذاتی علاج ہر قوم کے لوگوں کے لیے فائدہ مند ہو۔‘
تحقیق کے ایک اور مصنف اور کنگ عبد اللہ یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ ہوہنڈورف نے بتایا کہ ’اس تحقیق میں جو پین جینوم گراف بنائے گئے ہیں وہ دو الگ قوموں کے نمونوں پر مبنی ہیں اور ان کو ’جاپانی سعودی پین جینوم‘ کہا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سے صحت کے بارے میں نئی معلومات ملی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جاپان اور سعودی عرب ایشیا کے دو مختلف سروں پر واقع ہیں، اور ان کے درمیان طویل عرصے سے کوئی قریبی تعلق نہیں رہا۔ اس لیے ہمیں یہ جانچنے کا اچھا موقع ملا کہ جب آبادی مختلف ہو تو ان کے مخصوص پین جینوم گراف جینیاتی فرق کو سمجھنے میں کیسے مدد فراہم کر سکتے ہیں۔‘
تحقیق کے ایک اور مصنف کے یوسوکے کاوائی نے بتایا کہ ’اس منصوبے سے دونوں قوموں کے لیے طبی فائدے حاصل ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جاپانی اور سعودی آبادیوں کے لیے مخصوص پین جینوم گراف کی مشترکہ تیاری، دنیا بھر میں جینیاتی معلومات کی کمی کو پورا کرنے کی ایک اہم کوشش ہے۔‘
2023 میں پہلی انسانی پین جینوم کی رپورٹ شائع کی گئی تاہم اس تحقیق میں جو ڈی این اے نمونے جمع کیے گئے، وہ عرب یا جاپانی نسل کے افراد سے نہیں لیے گئے تھے، جس کا مطلب ہے کہ یہ جینوم تقریباً دنیا کی 10 فیصد آبادی کی نمائندگی کے بغیر تیار کیا گیا۔