Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منی ایپلس کا پولیس نظام ختم کرنے کا فیصلہ

گزشتہ دو ہفتے سے پولیس کی نسل پرستی کے خلاف مظاہرے جا ری ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
امریکی شہر منی ایپلس میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد پولیس کے موجودہ نظام کو ختم کر کہ متبادل نظام تشکیل دیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منی ایپلس سٹی کونسل نے موجودہ پولیسنگ کے نظام کو ختم کر کے شہریوں کی حفاظت کے لیے کمیونٹی کے ساتھ مل کر نیا نظام تشکیل دینے کا فیصلہ ووٹنگ کے ذریعے کیا۔ نیا نظام حقیقت میں شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے گا۔
منی ایپلس کی کونسل ممبر آلونڈرا کانو نے ٹویٹ کیا کہ یہ فیصلہ سٹی کونسل کے بیشتر ممبران کی رائے پر مبنی ہے، پولیس کا نظام اس قابل نہیں کہ اس میں اصلاحات کی جائیں لہٰذا موجودہ نظام کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ منی ایپلس کے سفید فام پولیس افسر کو جارج فلائیڈ کی 25 مئی کو ہونے والی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ جارج فلائیڈ کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس افسر نو منٹ تک ان کی گردن پر اپنا گھٹنہ ٹیکے بیٹھا ہے، جب کہ جارج فلائیڈ مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ 
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے خلاف منی ایپلس میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے جو دیگر شہروں یہاں تک دنیا بھر میںپھیل گئے۔ گزشتہ دو ہفتوں سے امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سیاہ فام افراد کے ساتھ نسل پرستانہ رویے کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ 

 جارج فلائیڈ 25 مئی کو پولیس تشدد کے باعث ہلاک ہو گیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی

گزشتہ سال امریکہ میں ایک سفید فام غیر مسلح آسٹریلین خاتون کی ہلاکت میں ملوث سیاہ فام پولیس افسر کو 12 سال اور چھ ماہ کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
امریکہ میں دو ہفتوں سے جاری مظاہروں میں روز بہ روز شدت آرہی ہے۔ ’سفید فام شہریوں کی خاموشی تشدد ہے‘ کے نعرے کت تحت اتوار کو مظاہرے منعقد ہوئے ہیں جن میں امریکی شہریوں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا۔
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے واقعے کے بعد سے ایک مرتبہ پھر یہ بحث منظر عام پر آئی ہے کہ امریکہ میں نسل پرستی میں سفید فام شہریوں کی خاموش حمایت شامل رہی ہے۔
حالیہ مظاہروں میں ایسے متعدد شہریوں نے حصہ لیا جو اس سے پہلے کبھی نسل پرستی سے متعلق احتجاج میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ گھر میں بیٹھنے اور احتجاج میں شامل نہ ہونا یہ پیغام دینا ہے کہ ہمیں کوئی پرواہ نہیں اور خاموش رہنے کا مطلب نسل پرستی کی حمایت کرنا ہے۔

سپین میں ہزاروں مظاہرین نے امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاج کیا۔ فوٹو اے ایف پی

اتوار کو یورپ کے کئی ممالک میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت اور نسل پرستی کی مخالفت میں مظاہرے ہوئے۔
سپین کے شہر میڈرڈ میں ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاج کرتے ہوئے جارج فلائیڈ کے آخری الفاظ ’مجھے سانس نہیں آرہا'کے نعرے لگائے۔ مظاہرین نے امریکی حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا۔
مظاہرے میں شامل لینسیٰ کا کہنا تھا کہ'نسل پرستی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ ان تمام ممالک میں جہاں میں رہتی رہی ہوں، مجھے اپنی رنگت کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘
روم میں جارج فلائیڈ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مظاہرین نے آٹھ منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ آٹھ منٹ تک پولیس افسر جارج فلائیڈ کی گردن پر گھٹنہ ٹیکے بیٹھا رہا تھا جبکہ جارج فلائیڈ مدد کے لیے پکار رہا تھا۔

شیئر: