Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہفتے، اتوار کو مارکیٹیں کھولنے کا حکم واپس

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت کورونا سے تحفظ کے اقدامات کر رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے ہفتے اور اتوار کو مارکیٹیں کھولنے کا حکم واپس لے لیا۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ کورونا سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اور کورونا سے بچنے کے لیے ایس او پیز پر عمل درآمد کے حوالے سے قومی سطح پر قانون سازی کرے۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ سینیٹری ورکرز کو حفاظتی کٹس کے بغیر سیوریج لائنوں میں نہ اتارا جائے۔ 
عدالت نے حکومت سے ٹڈی دل سے ہونے والے نقصانات، حکومتی اقدامات اور غذائی تحفظ پر اس کے اثرات کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ بھی طلب کر لی۔
پیر کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ میں کورونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے کی۔ بینچ کے رکن جسٹس مظہر عالم میاں خیل کمرہ عدالت میں نہیں آئے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت کورونا سے تحفظ کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت اب ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن
ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر عدالت اس حوالے سے حکم نامہ جاری کر دے اس کا وزن بہت زیادہ ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے لیے تو حکومت کو قانون سازی کرنی چاہیے، تاحال کورونا سے تحفظ کی قانون سازی نہیں کی گئی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صوبائی سطح پر قانون موجود ہیں۔
 چیف جسٹس نے کہا کہ قومی سطح پر کورونا سے تحفظ کی کوئی قانون سازی چاہیے۔ قومی سطح پر قانون سازی کا اطلاق پورے ملک پر ہو گا۔ ملک کے تمام ادارے کام کرسکتے ہیں تو پارلیمنٹ کیوں نہیں؟

چیف جسٹس کے مطابق کورونا بحران میں قومی یکجہتی نظر نہیں آرہی (فوٹو: اے ایف پی)

چیف جسٹس نے کہا کہ پورے کورونا بحران میں ہمیں کہیں کوئی قومی یکجہتی اور پالیسی نظر نہیں آرہی۔ سپریم کورٹ نے اپنے پہلے ہی فیصلے میں کورونا سے نمٹنے کے لیے قومی پالیسی کی تشکیل کا حکم دیا تھا۔
’افسوس ہے ابھی تک کوئی قومی پالیسی مرتب نہیں کی گئی۔ پورے کورونا بحران میں ہمیں کہیں کوئی قومی یکجہتی اور پالیسی نظر نہیں آرہی۔‘   
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ نہیں معلوم کورونا مریضوں کی تعداد کہاں جا کر رکے گی۔ کورونا وائرس کسی صوبے میں تفریق نہیں کرتا اور لوگوں کو مار رہا ہے۔ وفاقی حکومت کو اس معاملے پر قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
’وفاقی حکومت کورونا سے بچاؤ کے لیے قانون سازی کرے۔ وقت سب سے بڑا اثاثہ ہے، وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ آپ کے پاس اب وقت نہیں رہا ، ایک لاکھ سے زائد کورونا مثبت کیسز آگئے ہیں۔‘

سپریم کورٹ نے کہا کہ حکومت کورونا کے معاملے پر قانون سازی کرے (فوٹو: اے ایف پی)

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت لوگوں کے بنیادی حقوق کی بات کر رہی ہے لوگوں کی زندگی کا تحفظ سب سے بڑا بنیادی حق ہے۔ موجودہ حالات میں لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ صرف پریس کانفرنس کے ذریعے عوام کا تحفظ نہیں ہوگا۔ پریس کانفرنس کر کے پوائنٹ سکورنگ کی جاتی ہے۔ عوام کا تحفظ قانون کے بننے اور اس پر عمل سے ہوگا۔'
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کو قانون سازی کی تجویز دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تو پہلے دن سے فنکشنل ہیں عدالتیں بند نہیں کر سکتے۔ ہم بھی کورونا وائرس کی حدت کو محسوس کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ روزانہ 30 ہزار ٹیسٹ نہ ہونے کے برابر ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈاکٹرز کو حفاظتی سامان ہر حال میں دستیاب ہونا چاہیے۔ خدانخواستہ حفاظتی سامان نہ ہونے سے کوئی نقصان ہوا تو تلافی نہیں ہوگی۔ ورکرز کی ہلاکت پر وزیراعلٰی جا کر معاوضے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ عدالت ایسی چیزوں کی صرف نشاندہی کر سکتی ہے۔ قانون سازی کے عملی اقدامات ہر حال میں حکومت نے کرنا ہیں۔ 
اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ عدالتی حکم پر عید کے لیے ہفتہ اور اتوار کو مارکیٹیں کھولی گئی تھیں۔ بہتر ہوگا اگر عدالت یہ حکم واپس لے لے اور وفاقی حکومت کو پالیسی کے مطابق اقدامات کی اجازت ہو۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کرتے ہوئے اپنے عید سے پہلے کے حکم نامے میں ترمیم کر دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کورونا سے نمٹنے کی پالیسی کے مطابق اقدامات کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بیرون ملک سے منگوائے گئے سامان کا آڈٹ ہوگا (فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ لوگوں میں تاحال آگہی نہیں آئی۔ عید کے موقع پر لوگوں نے ایس او پیز کو نظر انداز کر دیا۔ ویکسین کی دریافت سے قبل واحد راستہ احتیاطی تدابیر ہیں۔ کورونا کا وائرس بہت تیزی سے بڑھ گیا ہے۔شہریوں کو بھی ذمہ داری دکھانا ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس والوں کو دکان داروں اور خریداروں سے پیسے لینے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ کس طرح سے ایس او پیز پر عمل ہوگا۔
این ڈی ایم اے کی طرف سے ممبر ادریس محسود عدالت میں پیش ہوئے۔ انھوں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ملک میں کورونا ٹیسٹنگ کی صلاحیت 30 ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ٹیسٹ کی صلاحیت کو ساتھ ساتھ بڑھایا جائے گا۔ کورونا کے مریض ایک لاکھ سے تجاوز کر چکے ہیں۔ کورونا ٹیسٹنگ کی 100 لیبارٹریز قائم کی جا چکی ہیں۔

این ڈی ایم اے نے بتایا کہ کورونا ٹیسٹنگ کی 100 لیبارٹریز قائم کی جا چکی ہیں (فوٹو: روئٹرز)

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ تیس ہزار ٹیسٹ تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان کی آبادی تو بائیس کروڑ ہے۔ سو لیبارٹریز تو صرف کراچی میں ہونی چاہییں۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اب تک کورونا کے کتنے ٹیسٹ سرکاری اور کتنے نجی لیبز نے کیے؟ ممبر این ڈی ایم اے نے بتایا کہ یہ تمام تفصیلات صرف وزارت صحت دے سکتی ہے۔ ہمارا کام لیب کو طبی سامان فراہم کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چین نے پاکستان کو کتنے وینٹی لیٹرز عطیہ کیے ہیں؟
 این ڈی ایم اے کی طرف سے بتایا گیا کہ چین نے پاکستان کو 100 وینٹی لیٹرز عطیہ کیے ہیں۔این ڈی ایم اے نے چودہ سو وینٹی لیٹر بیرونی ممالک سے خریدے ہیں۔

این ڈی ایم اے نے 1400 وینٹی لیٹر بیرونی ممالک سے خریدے (فوٹو: اے ایف پی)

'تین سو وینٹی لیٹرز باہر سے آ چکے ہیں۔ پاکستان میں ڈیسکو پی او ایف واہ اور نجی شعبہ بھی وینٹی لیٹرز اور پی پی ای اور این 95 ماسک بنا رہے ہیں۔ عدالت کے پوچھنے پر بتایا گیا کہ پاکستان پی پی ای سمیت کوئی بھی حفاظتی سامان برآمد نہیں کر رہا۔'
چیف جسٹس نے کہا کہ جو سامان منگوایا گیا اس کی دستاویزات ریکارڈ پر کیوں نہیں؟ یہ نہیں کہ جو مرضی کرتے پھریں۔ تمام خریداری کا ہم آڈٹ کروائیں گے۔ صوبوں کا بھی ہم آڈٹ کروائیں گے۔ دیکھتے ہیں کہ کورونا پر کس نے کیا کچھ کیا ہے۔ 
اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ سینیٹری ورکرز کو مناسب حفاظتی سامان کے بغیر سیوریج لائنوں اور مین ہول میں اتارا جاتا ہے۔ اس سے ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔

عدالت نے سینیٹری ورکرز کے معاملے پر قانون سازی کی ہدایت کر دی (فوٹو: اے پی پی)

 چیف جسٹس نے کہا کہ اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے۔ کسی بھی ورکرز کو حفاظتی سامان کے بغیر کام کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں سینیٹری ورکرز کو حفاظتی سامان کی فراہمی کے بغیر مین ہول اور سیوریج لائنوں میں اتارنے سے روکنے کا حکم دیتے ہوئی صوبائی حکومتوں کو قانون سازی کا بھی حکم دیا۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔

شیئر: