Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’تحریک سے دغا بازی خواری کا باعث ہے‘

سید علی گیلانی حریت کانفرنس کے تاحیات چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ فوٹو اے ایف پی
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مزاحمت کی علامت سمجھے جانے والے علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی نے اچانک حریت کانفرنس کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
کشمیر کی علیحدگی کی بات کرنے والے پاکستان نواز رہنما سید علی گیلانی حریت کانفرنس کے تاحیات چیئرمین تھے لیکن پیر کو انھوں نے اپنے عہدے سے دست برداری کا اعلان کر دیا۔
انھوں نے حریت کانفرنس کے صدر کے طور پر اپنا جانشین راولپنڈی میں مقیم عبداللہ گیلانی کو بنایا ہے تاہم انھوں نے کہا کہ وہ 'اس دیار فانی سے رحلت تک' انڈین استعمار سے ہمیشہ نبرد آزما رہیں گے۔
انھوں نے ایک منٹ سے بھی کم دورانیے کے ایک آڈیو کلپ میں اپنے استعفے کا اعلان کیا اور پھر دو صفحات پر مبنی ایک خط کے ذریعے حریت کانفرنس کے دھڑے میں شامل تمام اکائیوں کی تفصیلات پیش کیں۔
سید علی گیلانی نے آڈیو کلپ میں کہا کہ وہ کل جماعتی حریت کانفرنس کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر اس فورم سے مکمل طور پر علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں۔
خط میں کسی کا نام لیے بغیر انھوں نے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی، مالی بے ضابطگیوں اور قیادت سے کھلی بغاوت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے استعفے کا جواز پیش کیا ہے۔ 
سوشل میڈیا پر موجود اس خط میں انھوں نے لکھا کہ: ’ہماری تحریک بہت ہی قیمتی ہے، اس میں مخلص کارکنوں کی بے لوث خدمت، عوام کا جذبہ ایثار و قربانی اور شہدا کا مقدس لہو شامل ہے۔ ہم قوم کے اس بیش بہا سرمایے کی امانت داری کے داعی ہیں اور اس امانت سے وفاداری اور اخلاف ہمارے لیے کامیابی و کامرانی کی ضمانت ہے اور خدانخواستہ اس سے دغا بازی اور اس کی ناقدری ہمارے لیے دنیا و آخرت میں خواری اور رسوائی کا باعث ہے۔‘
انھوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے متعلق لکھا کہ ’گذشتہ برس قابض انڈیا نے مقبوضہ ریاست کو اپنے وفاق میں ضم کر کے ریاست کو دو حصوں میں منقسم کرنے کا خود ساختہ فیصلہ کیا، تاکہ فلسطین کی خون آشام داستان کو یہاں دہرایا جائے۔ چنانچہ اس قبیح سازش کو عملی شکل دینے کے لیے پوری قوم کو یرغمال بنا کر تقریباً سبھی چھوٹے بڑے قائدین، کارکنوں، وکلا اور طلبا کے ہمراہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کرے کے بیرون ریاست جیلوں میں پہنچا دیا گیا۔‘
انھوں نے جیل کے باہر رہ جانے والی قیادت سے شکایت کرتے ہوئے لکھا: ’تاریخی قدغنوں اور زیر حراست ہونے کے باوجود میں نے آپ کو بہت تلاش کیا، پیغامات کے ذریعے رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کی مگر کوئی بھی کوشش بار آور ثابت نہیں ہوئی اور آپ تلاش کے باوجود دستیاب نہ ہوئے۔ مستقبل کے حوالے سے لائحہ عمل پیش کرنے اور ان حالات میں قوم کی رہنمائی کرنے میں میری صحت اور نہ ہی ایک دہائی کی حراست کبھی میرے سامنے حائل ہوئی۔‘
سید علی گیلانی نے اپنے خط میں مزید کہا کہ ’آج جب آپ کے سروں پر احتساب کی تلوار لٹکنے لگی، جوابدہی کی تپش محسوس ہونے لگی، مالی بے ضابطگیوں سے پردہ سرکنے لگا اور اپنے منصب چھِن جانے کا خوف طاری ہوا تو وبائی مارا ماری اور سرکاری بندشوں کے باوجود آپ حضرات نام نہاد شوریٰ کا اجلاس منعقد کرنے کے لیے جمع ہوئے اور اپنے نمائندوں کے غیر آئینی فیصلے کی حمایت اور تصدیق کر کے یکجہتی اور یکسوئی کی انوکھی مثال قائم کی، اور اس ڈرامے کو اپنے چہیتے نشریاتی اداروں کے ذریعے تشہیر دے کر انھیں بھی اس 'گناہِ بے لذت' میں شریک کیا۔‘
خیال رہے کہ اس سے قبل جب 2003 میں اسی قسم کی بے ضابطگیوں کا معاملہ سامنے آیا تھا اور سید علی گیلانی کو تاحیات چیئرمین بنایا گیا تھا تو میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں کل جماعتی حیرت کانفرنس کا ایک دھڑا علیحدہ ہو گیا تھا۔
سید علی گیلانی نے اپنے خط میں اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر سید علی گیلانی کے استعفے پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے تاہم اسے لوگوں نے ایک بڑے باب کا اختتام بھی کہا ہے۔

شیئر: