Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آرٹیکل 370 کا خاتمہ، پاکستان نے مسترد کر دیا

نوٹی فیکیشن کے مطابق اب وادی کشمیر میں مرکزی حکومت کے قوانین لاگو ہوں گے، فوٹو: اے ایف پی
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے قریباً تین ماہ بعد مرکزی حکومت نے جمعرات کو باقاعدہ طور پر متنازع خطے جموں و کشمیر کو دو وفاقی حصوں میں تقسیم کر دیا۔ دوسری جانب پاکستان نے انڈیا کی جانب سے کشمیر کی تقسیم کے اقدام کو مسترد کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ انڈین حکومت کی جانب سے پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا۔
انڈیا کے مقامی چینل این ڈی ٹی وی نے وزارت داخلہ کے نوٹی فیکیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کو ’یونین ٹیریٹری آف جموں اینڈ کشمیر‘ کر دیا گیا ہے۔
بدھ کو جاری نوٹی فیکیشن کے مطابق اب وادی کشمیر میں مرکزی حکومت کے قوانین لاگو ہوں گے۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ساتھ ہی وہاں سیاحت پر بھی اثر پڑا ہے، فوٹو: اے ایف پی

انڈین حکومت کی جانب سے جمعرات کو ہی جموں و کشمیر اور لداخ کے لیے لیفٹیننٹ گورنرز اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
گیریش چندرا مرمو کشمیر جبکہ سابق سیکرٹری دفاع رادھا کرشنا ماٹھور لداخ کے لیفٹیننٹ گورنر ہوں گے۔
پولیس کا محکمہ اور امن عامہ مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہوں گے۔

جموں و کشمیر کی تقسیم کا نوٹی فیکیشن قبول نہیں، دفتر خارجہ

پاکستان نے انڈیا کی جانب سے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے شملہ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔
 پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان انڈیا کی جانب سے کشمیر کی دو وفاقی علاقوں میں تقسیم کو مسترد کرتا ہے۔‘

انڈین حکومت نے پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، فوٹو: اے ایف پی

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’مقبوضہ کشمیر میں سٹیٹس کو کی تبدلی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان دو طرفہ معاہدوں خصوصاً شملہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔‘  
 بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’مقبوضہ کشمیر عالمی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے۔‘
واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد سے سینکڑوں مقامی سیاست دان، سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی تاحال نظر بند ہیں۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے وہاں سخت سفری پابندیاں عائد ہیں جبکہ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی بند ہے۔

اب کشمیر میں پولیس کا محکمہ اور امن عامہ مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہوں گے، فوٹو: اے ایف پی

وادی میں سکول، کالجز،دکانیں، ریستوران اور ہوٹلز بھی بند ہیں۔
خبررساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق سابق کشمیری بیورو کریٹ وجاہت حبیب اللہ کہتے ہیں کہ ’ماضی کی حکومتوں کا رویہ جیسا بھی تھا لیکن یہ احساس تھا کہ کشمیریوں کا کچھ اپنا ہے۔‘
’اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کھو گئی ہے۔‘
روئٹرز کے مطابق گذشتہ منگل کو کشمیر میں مشتبہ شدت پسندوں نے تعمیراتی کام سے منسلک پانچ مزدوروں کو ہلاک کیا تھا۔ اعلیٰ حکام کے کہنا تھا کہ ’یہ ہلاکتیں اس مہم کا حصہ لگ رہی ہے کہ غیر مقامی افراد کو کشمیر میں کام کرنے سے روکا جائے۔‘
رواں ہفتے مظاہرین نے سری نگر کی گلیوں میں احتجاج کیا اور سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ بھی کیا۔
یاد رہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ساتھ ہی وہاں سیاحت پر بھی اثر پڑا ہے۔

شیئر: