Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹریول ایجنسیوں کا کاروبار بھی ٹھپ

پاکستان میں سب سے زیادہ متاثر حج و عمرہ ٹور آپریٹرز ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
کورونا وائرس کے باعث بین الاقوامی پروازوں کی طویل عرصہ تک بندش، دوسرے ممالک سے حج و عمرہ اور سیاحت پر پابندی اور بیرون ملک روزگار کے مواقع محدود ہو جانے کے باعث پاکستان میں ٹریول ایجنسیوں کا کاروبار چار ماہ سے عملی طور پر بند ہو کر رہ گیا ہے۔
اس وجہ سے پاکستان میں ہزاروں افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے جبکہ حکومت اس شعبے سے وابستہ افراد کی جانب سے ٹیکسوں کی مد میں آنے والی بڑی رقم سے بھی محروم رہے گی۔
پاکستان میں ٹریول ایجینٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان اور حج آرگنائزرز ایسوسی ایشن آف پاکستان دو ایسی تنظیمیں ہیں جن کے ارکان ٹریول ایجنسیوں، حج و عمرہ اور اوورسیز ایمپلائمنٹ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
دونوں کی مجموعی ممبرشپ 21 سو سے زائد ہے جبکہ صوبائی محکمہ سیاحت سے لائسنس لے کر دفتر کھولنے کی اجازت رکھنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے، جبکہ بہت سے غیر رجسٹرڈ ٹریول ایجنٹس اور ٹریول اینڈ ٹور آپریٹرز بطور سب ایجنٹ کام کرتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں وہ بھی متاثرہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔
اردو نیوز نے ملک بھر کے متعدد ٹریول ایجنٹس سے ٹیلی فون پر بات چیت کر کے موجودہ صورت حال میں ان کے کاروبار کے متاثر ہونے کے بارے میں دریافت کیا۔
ان سب کی گفتگو کا خلاصہ نکالا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ متاثر حج و عمرہ ٹور آپریٹرز ہیں جن کا رمضان میں عمرہ کا سیزن بھی متاثر ہوا اور اس دفعہ حج پر بھی پاکستان سے کسی کو نہیں بھیج سکے۔ ٹکٹنگ اور اووسیز ایمپلائمنٹ دوسرے جبکہ ٹور پلانر متاثرین میں تیسرے نمبر پر ہیں۔
گجرات سے تعلق رکھنے والے فاران ٹریولز کے جنرل مینجر پرویز اختر کے مطابق وہ صرف رمضان میں ایک ہزار سے 15 سو افراد کو عمرے کے لیے روانہ کرتے تھے، لیکن اس بار وہ ایک بھی زائر کو نہیں بھیج سکے، جبکہ اس مقصد کے لیے انھوں نے کئی سو ٹکٹس ایڈوانس میں بک کر رکھی تھیں۔ اب ایئرلائنز کی رقم واپسی کی پالیسی میں تبدیلی کے باعث وہ رقم واپس بھی نہیں مل رہی۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمارا دفتر اگرچہ سرکاری بلڈنگ میں ہے۔ حکومت اعلان کرتی رہی لیکن کرایہ معافی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا۔ جب بڑی بڑی ایئرلائنز دیوالیہ ہوگئی ہیں اور ہم ٹریول ایجنسی کہاں ہیں؟ ہم اگر حکومت کی طرف دیکھیں تو ہمیں ان سے کسی قسم کے ریلیف کی کوئی امید نہیں۔ ہم بے بس اور مجبور ہوگئے ہیں۔‘

’اس دفعہ بہت سی ایجنسیوں کے پاس اپنے لائسنسوں کی تجدید کے لیے پیسے نہیں ہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’اگر کسی ٹکٹ کی قیمت 50 ہزار روپے ہو تو اس میں سے 20 ہزار روپے ہی ایئرلائن کو جاتے ہیں، جبکہ 30 ہزار روپے سرکاری اداروں میں بطور ٹیکس جاتے ہیں۔‘
’ہمارے پاس بڑی تعداد ان مسافروں کی ہے جو یورپ یا دیگر ممالک میں مقیم ہوتے ہیں اور پاکستان چھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔ ان کے ٹکٹوں کی مالیت لاکھوں میں ہوتی ہے اور اسی حساب سے ٹیکس بھی کاٹا جاتا ہے۔ ہونہار وزیر ہوابازی کے بیان کے بعد صرف پی آئی اے ہی نہیں ٹیکس اکٹھا کرنے والا شعبہ بھی متاثر ہوگا۔ امارات اور قطر کے علاوہ باقی ایئرلائنوں نے ابھی پروزاوں کا آغاز ہی نہیں کیا جو ٹکٹنگ سے وابستہ ٹریل ایجنٹس اور حکومت دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔‘
پاکستان میں ٹریول اینڈ ٹورز میں معروف الوصام گروپ کے حاجی محمد اسلم کے مطابق پاکستان میں ٹریول ایجنسی کا کاروبار چیمبر آف کامرس، ٹورزم ڈیپارٹمنٹ، وزارت داخلہ، اوورسیز پاکستانیز، سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، ایاٹا اور سعودی حکومت کی وزارت حج سے منسلک ہوتا ہے۔ ان تمام اداروں میں رجسٹرڈ ہونے کے لیے لاکھوں روپے بلکہ ’ایاٹا‘ میں رجسٹریشن کے لیے ہزاروں ڈالرز فیس اور سالانہ بینک گارنٹی دینا پڑتی ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ آپ کی کمپنی سالانہ کتنا ٹیکس دیتی ہے تو انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں ایک عام ٹور آپریٹر فی حاجی پانچ ہزار روپے ٹیکس دیتا ہے۔ یہ ہم ایڈوانس ٹیکس دیتے ہیں۔ اب جس کے پاس جتنا کوٹہ ہوتا ہے وہ اسی طرح فی حاجی کے حساب سے ٹیکس دیتا ہے۔ ایف بی آر کو دیا جانے والا ٹیکس الگ ہے۔ ایئر لائن کے بعد ہمارا کاروبار بند ہونے سب سے زیادہ نقصان حکومت کو ہوا ہے کیونکہ ٹریول ایجنٹس پاکستان میں ارپوں روپے ٹیکس دیتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس دفعہ بہت سی ایجنسیوں کے پاس اپنے لائسنسوں کی تجدید کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اگست میں ایاٹا کی پانچ لاکھ فیس اور بینک گارنٹی کی تجدید کرنی ہے۔ بہت سے ٹریول ایجنٹ اپنی ایاٹا رینکنگ ڈاون کر رہے ہیں تاکہ وہ پانچ لاکھ روپے بچا سکیں۔ جس کے تحت ان کی رجسٹریشن تو برقرار رہے گی، تاہم وہ ٹکٹکنگ نہیں کرسکیں گے۔ یہ مشکل مرحلہ ہے کہ لوگوں کو اپنے کئی سالوں کا کاروبار تقریبا بند کرنا پڑ رہا ہے۔

یاسر رشید نےکہا کہ ’ٹریول ایجنسیوں میں بڑی بڑی لمیٹڈ کمپنیاں بند ہو گئی ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ایک اور سوال کے جواب میں حاجی اسلم نے کہا کہ ’پہلے فضائی آپریشن جزوی طور پر بحال ہونے اور مکمل بحال ہونے کے اعلان کے بعد بھی ہمارا بزنس واپس نہیں آیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ باہر سے آ رہے ہیں ان کے پاس ٹکٹ پاکستان سے بک کرنے کی سہولت نہیں بلکہ وہ بے چارے پاکستان سے پیسے منگوا کر ٹکٹ خریدنے پر سب سے زیادہ مجبور ہیں۔‘
اس صورت حال میں متاثر ہونے والی وہ ٹریول ایجنسیاں ہیں جو بیرون ملک روزگار کے لیے پاکستانیوں کو بھیجتی تھیں، ان کے ویزہ میڈیکل اور پروٹیکٹرز وغیرہ کا انتظام کرتی ہیں۔
اس شعبے سے وابستہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے یاسر رشید نے بتایا کہ ’ٹریول ایجنسیوں میں بڑی بڑی لمیٹڈ کمپنیاں بند ہو گئی ہیں۔ ہمارے عمرے کے ٹکٹوں اور رہائشوں کے پیسے پھنسے ہیں۔ بیرون ملک روزگار کا سلسلہ ویسے ہی بند ہوگیا ہے۔
ان کے مطابق جو لوگ پاکستان آئے تھے ان کے پاس واپسی کا آپشن نہیں ہے وہ جس بھی ایئرلائن کا ٹکٹ لیتے ہیں وہ کینسل ہو جاتی ہے۔ ہم ان میں تبدیلیاں کرنے کے لیے یہاں بیٹھے ہیں۔‘

عدیل یونس کے مطابق سیاحت کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ ’بیرون ملک بالخصوص خلیج میں بسلسلہ روزگار جانے والوں کا ہزاروں کی تعداد میں میڈیکل کرایا جاتا تھا جس کی وجہ سے سرکاری خزانے کو لاکھوں روپے کا فائدہ ہوتا تھا۔ پروٹیکٹر فیس کا سلسلہ بھی اس لیے رکا ہوا ہے کہ وہ تمام دفاتر بند ہیں۔ اگر یہ سلسلہ مزید طویل ہوا تو ہمارا کاروبار مکمل طور پر بند ہو جائے گا۔‘
اسلام آباد میں بین الاقوامی سطح پر سیاحتی ٹورز آرگنائز کرنے والے عدیل یونس کہتے ہیں کہ ’جہاں حج و عمرہ پر پابندی ہے وہیں سیاحت وہ شعبہ ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ وہ لوگ جو سال دو سال بعد دنیا کے مختلف ممالک میں سیر و تفریح کے لیے جاتے تھے، موجودہ صورت حال میں بالکل ہی خاموش ہیں، بلکہ کچھ پیسے بچانے کے لیے ہم نے ایڈوانس میں جو ایئر ٹکٹ یا ہوٹل بکنگز کروائی تھیں ان کے پیسے بھی ڈوب ہی گئے ہیں کیونکہ فی الحال واپسی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔‘

شیئر: