Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا لاک ڈاؤن نے ٹک ٹاک کو مقبول کیا؟

ملازمین اپنے سمارٹ فونز سے ایپ ہٹائیں یہ سیکیورٹی رسک ہے۔ (فوٹو سوشل میڈیا)
چین کی ویڈیو ایپ ٹک ٹاک ایک مرتبہ پھر مسائل سے دوچار ہے۔ یہ ایپ افواہوں کی زد میں ہے کہ چین کی حکومت اسے آن لائن جاسوسی کے لیے استعمال کرتی ہے۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق چین کی کمپنی بائٹ ڈانس کی ملکیت یہ ٹک ٹاک ایک ویڈیو شیئرنگ اپپ ہے، جہاں صارفین اپنی مختصر کلپس ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں۔

نہیں جانتے کہ ٹک ٹاک ڈیٹا کس طرح استعمال کر رہا ہے۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

 ٹک ٹاک ویڈیو میں موجود شخصیت کے ہونٹوں کی مطابقت سے خاص فلٹرز کا استعمال کرنے سے صارفین کو مختصر کلپس بنانے کا موقع ملتا ہے۔ بعد ازاں انہیں سوشل میڈیا پر شیئر یا ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث جہاں ہر طرف لاک ڈاؤن اور کرفیو کا سامنا رہا وہاں اس ایپ میں دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ بہت سارے صارفین نے ویڈیو دیکھنے کے لیے ٹک ٹاک ڈاؤن لوڈ کیا اور کورونا وائرس کے عروج کے زمانے میں ان ویڈیوز کو دوبارہ تخلیق کرنے کی کوشش کی۔
اس ایپ کے حوالے سے مشرق وسطیٰ میں سعودی ماڈل روز، متحدہ عرب امارات میں مقیم خالد اور سلامہ اور سعودی ٹاپ ٹک ٹاکر نے خاصی مقبولیت حاصل کی ہے، جنہوں نے چار لاکھ فالوورز تک رسائی حاصل کی۔

ٹک ٹاک پر صارفین کو مختصر کلپس بنانے کا موقع ملتا ہے۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

ریاض کی دارالعلوم یونیورسٹی کی چوتھے سال کی میڈیکل کی طالبہ رانیہ محمد کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی اور قرنطینہ کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹک ٹاک بہترین ذریعہ تھا۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا 'میڈ یکل کی طالبہ ہونے کے باعث پڑھائی کا وقت اور فارغ وقت دونوں ہی مخصوص اور محدود ہیں۔ اس اثناء میں ٹک ٹاک کے لیے 15 منٹ کا وقفہ لینے سے مجھے حوصلہ افزائی ملتی ہے۔ اس ایپ سے مزاح کا مخصوص انداز مجھے خوش رکھنے اور ہنسانے کا ذریعہ ہے۔'
سعودی سائبرسیکیورٹی کے ماہر عبد اللہ الجابر کا خیال ہے کہ اس ایپ کے قواعد و ضوابط سے ٹک ٹاک کے حاصل کردہ ڈیٹا کی سیکیورٹی پر تشویش پائی جاتی ہے۔

کورونا وائرس کے دوران اس ایپ میں دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

حال ہی میں یہ اطلاع ملی ہے کہ ایمیزون نے درخواست کی ہے کہ ملازمین اپنے سمارٹ فونز سے ایپ کو ہٹائیں۔ یہ سیکیورٹی رسک ہے۔ بعد ازاں کمپنی نے اپنی ہدایت سے دستبرداری اختیار کرلی۔
عبداللہ الجابرنے عرب نیوز کو بتایا 'ٹک ٹاک کے معاملے میں ہم اتنا نہیں جانتے کہ ڈیٹا کس طرح استعمال کیا جارہا ہے یا اسٹور کیا جارہا ہے کیونکہ ہم ان کے ضابطوں سے واقف نہیں۔'
واضح رہے کہ اپریل 2019 میں اس ایپ پر عارضی پابندی کے بعد ہندوستان کی وزارت الیکٹرونکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے رواں سال جون میں ٹک ٹاک پر پابندی کے ساتھ 58 دیگر چینی ایپس پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔
انڈونیشیا نے جولائی 2018 میں فحاشی اور توہین رسالت جیسے 'غیر قانونی مواد' سے متعلق عوامی تشویش کا حوالہ دیتے ہوئے ٹک ٹاک کو عارضی طور پر  بند کر دیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی معلومات کے مطابق حال ہی میں امریکہ اس ایپ پر پابندی عائد کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنے والا تیسرا ملک بن گیا ہے۔
ٹرمپ نے بھی ممکنہ طور پر ٹک ٹاک پر پابندی کے بارے میں ایک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ایپ پر پابندی لگانا چین کو کورونا وائرس کے جواب پر سزا دینے میں معاون ہوگا۔
اگرچہ سعودی عرب نے ابھی تک کسی بھی طرح کے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کا اعلان نہیں کیا لیکن مقامی صارفین اور پیروکار بہرحال اس ایپ کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط برتنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک ٹک ٹاک صارف الحمود نے ویڈیو بنانے پر غور کیا لیکن بعد میں اس خیال کو مسترد کردیا اور اب وہ  دوسرے لوگوں کی ویڈیوز استعمال کرتا ہے۔
'میرے پاس اس کے بارے میں خیالات ہیں لیکن میں خطرہ مول نہیں لوں گا۔ میرے پاس رجسٹرڈ اکاؤنٹ بھی نہیں، میرے پاس صرف ایپ ہے لیکن میں ان ویڈیوز کو اپنی معلومات دیے بغیر بھی دیکھ سکتا ہوں۔

انہیں خود ویڈیوز بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں حالانکہ ان کے پاس ویڈیوز پر تبصرہ کرنے اور اپنے پسندیدہ انتخاب پر نظر رکھنے کے لیے ایک رجسٹرڈ اکاؤنٹ ہے۔
تاہم الجابر نے کہا کہ ان کی رائے میں ٹک ٹاک پر اکاؤنٹ بنانے سے ضروری نہیں کہ دوسرے سوشل میڈیا کے لیے کسی قسم کا خطرہ ثابت ہو۔
انہوں نے کہا 'اگر آپ فیس بک یا ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں تو یہ ٹک ٹاک کے استعمال سے زیادہ مختلف نہیں۔'
 

شیئر: