Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ ایران کشیدگی: ایران کا طیارہ بردار جہاز آبنائے ہرمز میں

دنیا کا 20 فیصد تیل آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے۔ فوٹو عرب نیوز
ایران اور امریکہ کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران تہران نے اپنا طیارہ بردار بحری جہاز آبنائے ہرمز میں لا کھڑا کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران جلد ہی فوجی مشقوں کے لیے طیارہ بردار بحری جہاز کے استعمال کا ارادہ رکھتا ہے۔
ایرانی سرکاری میڈیا اور عہدے داروں نے فی الحال طیارہ بردار جہاز کے آبنائے ہرمز میں لانے کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔
طیارہ بردار جہاز کی موجودگی سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب اسی طرز کی فوجی مشقوں کی تیاری کر رہی ہے جو اس نے 2015 میں کی تھی۔
واضح رہے کہ تیل بردار جہاز دنیا کا 20 فیصد تیل لے کر آبنائے ہرمز سے گزرتے ہیں۔
امریکی نیوی کے بحرین میں موجود پانچویں بیڑے نے فی الحال ایرانی اقدام کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ امریکی نیوی کا پانچواں بیڑہ مشرق وسطیٰ کی آبائی گزرگاہوں کی پیٹرولنگ کرتا ہے۔
ایرانی طیارہ بردار بحری جہاز بالکل امریکی بیڑے ’نمٹز‘ کی نقل ہے جو باقاعدگی سے آبنائے ہرمز سے خلیج عرب کی جانب سفر کرتا ہے۔ حال ہی میں یو ایس ایس نمٹز بحر ہند سے ہوتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے پانی میں داخل ہوا ہے۔ فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ نمٹز آبنائے ہرمز میں سے گزرے گا یا نہیں۔
سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ دو سو میٹر طویل ایرانی طیارہ بردار جہاز پر سولہ جنگی طیارے موجود ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں اصلی امریکی نمٹز 300 میٹر سے زیادہ طویل اور 75 میٹر چوڑا ہے۔

علاقے میں امریکہ کا طیارہ بردار بحری جہاز پہلے سے ہی موجود ہے (فوٹو: روئٹرز)

ایران یہ مشق ایسے موقع پر کرنے جا رہا ہے کہ جب عالمی طاقتیں تہران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کر رہی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق ایران کا یہ اقدام گذشتہ ہفتے ہونے والے واقعے کا جواب بھی ہو سکتا ہے جب امریکی جنگی طیاروں نے تہران سے بیروت جانے والے مسافر بردار طیارے کا تعاقب کیا تھا جس کی وجہ سے چند مسافر زخمی ہو گئے تھے۔
ایران نے 2015 میں چھ عالمی طاقتوں امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
امریکہ 2018 میں یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا جس کے بعد سے امریکہ اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔

شیئر: