Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حکومت آر ایس ایس کا ایجنڈا تھوپ رہی ہے‘

انڈیا میں مختلف حلقوں نے نئی تعلیمی پالیسی پر اعتراض کیا ہے (فوٹو: پی ٹی آئی)
گذشتہ ہفتے بدھ کو انڈیا میں برسر اقتدار بی جے پی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا جس کے متعلق ملک میں بحث جاری ہے۔ کسی نے اسے تعلیم کے میدان میں بڑی پیش رفت کہا ہے تو کسی نے کہا ہے کہ اسے پارلیمان میں کیوں نہیں پیش کیا گيا اور دوسری جماعتوں سے اس کے متعلق مشورہ کیوں نہیں کیا گیا۔ کئی لوگوں نے تو صاف صاف کہا ہے کہ یہ آر ایس ایس کا ایجنڈا نافذ کرنے کی کوشش ہے۔
انڈیا میں تعلیمی نظام ہمیشہ سے بحث کا موضوع رہا ہے اور ریاستی سطح پر ہمیشہ مرکز کی مخالفت ہوتی آئی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی جو کہ 29 جولائی کو پیش کی گئی اس پر جنوبی ریاستوں بطور خاص تمل ناڈو میں مخالفت کا سامنا ہے جبکہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ نے اس پر نظرثانی کے لیے ایک کیمٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تمل ناڈو اس سے قبل بھی سہ لسانی فارمولے کے خلاف رہی ہے۔
جبکہ اتر پردیش کے سابق وزیراعلیٰ اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے کہا کہ مرکزی حکومت ملک پر 'آر ایس ایس کا ایجنڈا تھوپ رہی ہے اور سماجی ہم آہنگی کے اقدار اور آئین کے اصولوں کو مستقل تباہ کر رہی ہے۔'

 

آزادی کے بعد انڈیا میں پہلے بھی قومی پالیسی طے کی گئی۔ اس سے قبل سنہ 1968 میں پہلی قومی پالیسی آئی تھی پھر سنہ 1986 میں ایک اور قومی تعلیمی پالیسی لائی گئی جس میں سنہ 1992 میں ترمیم کی گئی تھی۔
انڈیا کی سیاست نے اس کے بعد سے بہت سے نشیب و فراز دیکھے اور ان میں سے نئی تعلیمی پالیسی بھی ایک ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی کے اہم نکات
نئی تعلیمی پالیسی ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے ایک جامع فریم ورک ہے۔ سب سے پہلے اس کی ضرورت سنہ 1964 میں محسوس کی گئی جب حکومت پر تنقید کی گئی کہ حکومت کے سامنے 'تعلیم کے متعلق وژن اور فلسفے کی کمی ہے'۔ اس کے بعد ڈی ایس کوٹھاری کی سربراہی میں ایک کمیشن کا قیام عمل میں آیا اور سنہ 1968 میں اس کمیشن کی تجاویز کو پہلی ایجوکیشن پالیسی کے طور پر اپنایا گیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے پیش کردہ نئی تعلیمی پالیسی میں بہت وسیع تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اعلی تعلیم کے شعبے میں بیرون ممالک کی یونیورسٹیوں کے لیے راستہ کھولنے کی بات کہی گئی ہے جس میں انھیں بہت حد تک خودمختاری حاصل ہوگی۔
اس سے قبل اعلی تعلیم کو ريگولیٹ کرنے والا ادارہ یوجی سی اور آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایڈوکیشن (اے آئی سی ٹی ای) تھا جسے اس پالیسی کے تحت ختم کیا جا رہا ہے۔ تین سال کی جگہ تقریبا تمام شعبے میں چار سال کا گریجویشن کا کورس متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اس نئی تعلیمی پالیسی کے تحت ایم فل یعنی ماسٹر آف فلاسفی کے کورس کو ختم کیا جا رہا ہے۔
سکول کی سطح پر نصاب میں بڑی تبدیلی کی جانی ہے، بورڈ کے امتحانات کو آسان بنانا ہے۔ نصاب میں صرف 'ضروری چیزوں' کو باقی رکھنا ہے اور اب سے زیادہ زور 'تجرباتی تعلیم اور تنقیدی فکر' کے فروغ پر دیا جانا ہے۔
اس میں تین سے آٹھ سال کی عمر تک کا بنیادی گروپ بنایا گیا ہے جس میں مادری زبان یا ریاستی زبان میں تعلیم کی بات پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے بعد آٹھ سال سے 11 سال تک کی عمر کا ایک گروپ بنایا گیا ہے جس میں آگے کی تیاری کی بنیاد رکھی جانی ہے۔ پھر 11 سال سے 14 سال تک درمیانی درجہ ہے اور 14 سے 18 سال ثانوی درجہ ہے۔
تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جس میں مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت دونوں کا دخل ہے اور یہ آئین کی کنکرنٹ فہرست میں شامل ہے اس لیے ریاستی حکومتیں اپنے اعتبار سے اس میں تبدیلیاں لا سکتی ہیں۔ اس پر عمل کرنا سب کے لیے ضروری ہے اور سنہ 2040 تک مکمل پالیسی کا نفاذ ضروری ہے۔
اس کے لیے مناسب فنڈ کی ضرورت ہے اور اس لیے یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ مجموعی پیداوار کا چھ فیصد تعلیم کے شعبے میں خرچ کیا جائے گا۔ فی الحال اس شعبے میں چار فیصد سے بھی کم خرچ کیا جا رہا ہے۔
یوجی سی اور اے آئی سی ٹی ای کی جگہ ہائر ایجوکیشن کمیشن آف انڈیا کا قیام عمل میں آئے گا اور ایک نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن کے قیام کی بھی تجویز پیش کی گئی ہے۔

نئی تعلیمی پالیسی میں یہ بھی شامل ہے کہ کالج میں داخلے کے لیے ملکی سطح پر امتحان ہوگا (فوٹو: اے ایف پی)

کانگریس کے رکن پارلیمان اور انسانی وسائل کے فروغ کے سابق وزیر ششی تھرور نے نئی پالیسی کا خیرمقدم کیا ہے لیکن سوال اٹھایا کہ اسے پارلیمان کے سامنے غور کے لیے کیوں نہیں پیش کیا گیا۔
اسی طرح جب گذشتہ سال اس کا مسودہ پیش کیا گیا اور اس پر لوگوں کی رائے لی گئی تو لوگوں نے بڑے پیمانے پر اس میں خامیوں کا ذکر کیا اور تقریبا دو لاکھ تجاویز پیش کیں۔
اس نئی تعلیمی پالیسی کو اس لیے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ مسودہ کو نئی تجاویز کے ساتھ دوبارہ پیش نہیں کیا گیا۔ این ڈی ٹی وی کے معروف پریزنٹر رویش کمار نے کہا کہ 'جب ہمارے سامنے حتمی پالیسی ہی نہیں ہے تو ہم کسی بات پر بحث کریں۔'
نئی تعلیمی پالیسی میں یہ بھی شامل ہے کہ کالج میں داخلے کے لیے ملکی سطح پر امتحان ہوگا جسے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب داخلہ انٹرینس امتحان کی بنیاد پر ہوگا تو پھر 10ویں اور 12 کے بورڈ امتحانات کے نتائج تو بے معنی ہو جائیں گے۔
کانگریس نے نئی پالیس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس میں 'انسانیت کے فروغ اور تعلیم کے پھیلاو کا بنیادی مقصد' ہی شامل نہیں ہے۔
کانگریس کی جانب سے سابق ایچ آر ڈی کے وزیر ایم پلم راجو، اہم ترجمان رندیپ سنگھ سورجے والا اور سابق رکن پارلیمان راجیو گوڈا نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں 'بڑے بڑے لبھانے والے الفاظ' ہیں لیکن اس کے نفاذ کا روڈ میپ نہیں ہے اور اس کے لیے مالی نقشہ نہیں ہے۔

پالیسی کے مطابق چھوٹی کلاسز کے بچوں کو سکول میں ناشتہ دیا جائے گا (فوٹو: ٹرائڈیٹ انڈیا)

انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ حکومت تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا چھ فیصد کہاں سے دے گی جبکہ یہ 14۔4 چار سے کم ہو کر 2۔3 فیصد ہو چکا ہے۔
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں میڈیم آف انسٹرکشن، یعنی تعلیم کس زبان میں دی جائے، کو بہت واضح نہیں کیا گیا ہے۔ ٹوئٹر پر بہت سے صارفین نے زور دیا کہ ملک بھر میں انگریزی کو میڈیم آف انسٹرکشن بنا دیا جائے تاکہ سب کو برابر ترقی کا موقع ملے کیونکہ ابھی تک یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ دیسی میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے بہت سے مقابلوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے چھوٹی کلاسز یعنی پانچویں تک کے بچوں کو سکول میں ناشتہ دیا جائے گا۔ ابھی پرائمری سرکاری سکولوں میں مڈ ڈے میل کا رواج ہے۔
اس نئی تعلیمی پالیسی کی تعریف کرتے ہوئے کئی ماہرین نے کہا کہ یہ انڈیا میں ٹیوشن اور کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کے پھیلے جال کو توڑ دے گا اور تعلیم کو زیادہ سے زیادہ انٹرنیٹ پر منحصر کیا جائے گا۔
دوسری جانب بہت سے ماہرین تعلیم نے کہا کہ نئی پالیسی شہر میں آباد لوگوں کا زیادہ خیال کر رہی جبکہ انڈیا کی بڑی آبادی آج بھی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ بہت سے ماہرین  نے اسے تعلیم کے میدان میں نئے عہد سے تعبیر کیا ہے۔

شیئر: