Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وقت وقت کی بات ہے

بابری مسجد کی مسماری کے اصل ملزمان میں ایل کے اڈوانی بھی شامل ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
قسمت نے ساتھ نہیں دیا ورنہ لال کرشن اڈوانی ہندوستان کے وزیراعظم ضرور بنتے، اور شاید ایودھیا میں رام مندر کا سنگ بنیاد بھی رکھتے۔
آپ ان کی سیاست اور ان کے نظریات سے اتفاق بھلے ہی نہ کریں لیکن یہ سچ ہے کہ انڈیا کی حکمراں جماعت بی جے پی کو اقتدار تک انہوں نے پہنچایا تھا۔
چلیے مانا دوسرے لوگوں کا بھی تھوڑا بہت یوگدان تھا، لیکن اصل معمار وہی تھے۔ اگر وہ بابری مسجد رام جنم بھومی کا مسئلہ نہ اٹھاتے اور معاشرے کے تانے بانے اور ملک کی سیاست پر اس کے مضمرات کی پرواہ کیے بغیر مندر کی تعمیر کے لیے رتھ یاترا نہ نکالتے تو بی جے پی کا انتخابی نشان کمل اب بھی کہیں کیچڑ میں ہی گھل رہا ہوتا۔
تو بس یہ سمجھ لیجیے کہ جیسے کبھی اندرا گاندھی کے لیے یہ نعرہ دیا گیا تھا کہ ’اندرا از انڈیا اینڈ انڈیا از اندرا بس ویسے ہی رام مندر کی تعمیر سے اڈوانی کی زندگی کا سیاسی گراف جڑا ہوا ہے۔
لیکن تیس سال کے انتظار کے بعد اب مندر کی تعمیر تو شروع ہوگئی ہے لیکن اس تقریب میں مدعو کیے جانے والوں کی فہرست میں سابق نائب وزیراعظم اور بی جے پی کے بانی اور سابق صدر کا نام شامل نہیں تھا۔
ظاہر ہے کہ تجزیوں کی کمی نہیں ہے۔ کسی نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی نہیں چاہتے ہوں گے کہ اس موقع پر، جب پورے ملک کی نگاہیں ایودھیا پر ٹکی ہوں گی، وہ کسی دوسرے رہنما کے ساتھ اٹینشن شیئر کریں۔
کسی اور کا خیال تھا کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی تعریف کرنے کے بعد اڈوانی کا سیاسی کیریئر ختم ہوگیا تھا اور تحریک کا آغاز کرنے والے سے زیادہ تحریک کو انجام تک پہنچانے والے کو یاد رکھا جاتا ہے۔
لیکن سب سے اچھا عذر یہ تھا کہ اڈوانی کی عمر بانوے برس ہے، بہت بزرگ ہوگئے ہیں، اس لیے انہیں کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے مدعو نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، لہٰذا وہ اس تقریب میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ شرکت کریں گے۔

رام مندر کی سنگ بنیاد کی تقریب میں ایل کے اڈوانی کو نہیں مدعو کیا گیا (فوٹو: ٹوئٹر)

دعوت نامہ تو ہمارے پاس بھی نہیں تھا، لیکن ہم نے ٹی وی چلانا زیادہ آسان سمجھا۔ شاید مسٹر اڈوانی نے بھی ایسا ہی کیا ہوگا اور سوچا ہوگا کہ ان کے پرانے ساتھی ان کی صحت کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔
اگر دعوت نامہ بھیج دیتے اور پریس کو خبر ہوجاتی تو نہ چاہتے ہوئے بھی جانا پڑتا، کس کس کو جواب دیتے کہ ایسے ماحول میں سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔
ایودھیا میں اس مقام پر مندر تعمیر ہو رہا ہے جہاں کبھی بابری مسجد ہوا کرتی تھی۔ مسجد کی مسماری کے کیس میں مسٹر اڈوانی بھی اصل ملزمان کی فہرست میں شامل ہیں اور آج کل عدالت کی کارروائی میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے شرکت کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے بہت فائدے ہیں۔
ایودھیا میں عالیشان مندر تو اب اگلے پارلیمانی انتخابات سے پہلے تیار ہو جائے گا، اس بات کو تو آپ تقریباً طے مانیے اور موجودہ سیاسی منظرنامے کو دیکھتے ہوئے اس بات کو بھی طے مانیے کہ اس کا افتتاح بھی نریندر مودی ہی کریں گے، اور جب مسٹر اڈوانی اس کے بارے میں سوچتے ہوں گے تو انہیں پاکستان کا وہ دورہ ضرور یاد آتا ہوگا جس نے ان کا سیاسی سفر اچانک ختم کر دیا تھا۔
وہ 2005 میں پاکستان گئے تھے اور کراچی میں، جو کبھی ان کا اپنا شہر ہوا کرتا تھا، جب وہ مزار قائد پر خراج عقیدت پیش کر رہے تھے تو انہوں نے لکھا تھا کہ 'ایسے تو بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ پر کبھی نہ مٹنے والی چھاپ چھوڑتے ہیں لیکن ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو خود تاریخ رقم کرتے ہیں۔'
وہ واپس لوٹے تو انہیں بی جے پی کے صدر کا عہدہ چھوڑنا پڑا اور اس کے ساتھ ہی ان کا وزیراعظم بننے کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا۔

اگلے پارلیمانی انتخابات سے پہلے رام مندر کے تیار ہو جائے گا (فوٹو: روئٹرز)

اندرا گاندھی کا ذکر آیا تو ان کے بارے میں بھی ایک دلچسپ بات بتاتے چلیں۔ ان کا شمار ملک کے سب سے طاقتور رہنماؤں میں کیا جاتا ہے۔ جب ان کی طاقت اپنے عروج پر تھی تو کانگریس پارٹی کے اندر اور باہر کسی کو شاید یہ نہ لگتا ہو کہ ان کا دور اقتدار کبھی ختم ہوگا۔
1975  سے 1977 کے درمیان ملک میں ایمرجنسی نافذ تھی، حزب اختلاف کے زیادہ تر بڑے سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا تھا (ان میں اڈوانی بھی شامل تھے) پریس سینسرشپ کا شکار تھی اور کسی کو آواز اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔
اندرا گاندھی کے بڑے بیٹے راجیو گاندھی اس وقت تک صرف جہاز اڑاتے تھے اور چھوٹے بیٹے اور اندرا گاندھی کے سیاسی وارث سنجے گاندھی ایک غیر معمولی سیاسی ورثے کی دھجیاں اڑا رہے تھے۔
پھر آخرکار ظلم کا دور ختم ہوا، 1977 میں الیکشنز ہوئے اور اندرا گاندھی ہار گئیں۔ ملک میں پہلی مرتبہ غیر کانگریسی حکومت بنی (اور اڈوانی اس میں وزیر اطلاعات و نشریات اور سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی وزیر خارجہ بنے) اور وہاں سے ہی موجودہ بی جے پی کی سرپرست نگراں تنظیم آر ایس ایس کو اپنے سیاسی فرنٹ جن سنگھ کے ذریعے سیاسی قومی دھارے میں داخل ہونے کا موقع ملا۔
جن سنگھ نے ہی آگے چل کر بی جے پی کی شکل اختیار کی۔
سیاسی مبصر مانتے ہیں کہ ایمرجنسی کے دوران عوام کو سب سے زیادہ ناراضی سنجے گاندھی سے تھی جو خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کا بے رحمی کے ساتھ اطلاق کر رہے تھے۔ سنجے گاندھی کی ہی کار گزاریاں اندرا گاندھی کو لے ڈوبیں۔
انتخابی شکست کے بعد جب اندرا گاندھی سے مشہور صحافی خوشونت سنگھ نے پوچھا کہ کیا ہوا، تو انہوں نے جواب دیا: فیڈ بیک نہیں ملا۔
جہاں تک مسٹر اڈوانی کا سوال ہے، وہ فیڈ بیک دینے سے گریز نہیں کرتے لیکن سخت ہے وقت کی راہ گزر، آج کل سنتا کوئی نہیں۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

شیئر: