انڈیا میں کسی چیز کو مذہبی رنگ دینے کی روایت نئی نہیں ہے لیکن گذشتہ دنوں جتنے مذہبی تنازعات یکے بعد دیگرے نظر آئے ہیں وہ اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ لوگ مزید مذہبی ہوتے جا رہے ہیں یا پھر لوگوں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔
گذشتہ دنوں انڈیا کے شہر ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے بھومی پوجن یعنی زمین کی پوجا کا بڑے پیمانے پر پرشکوہ انداز میں انعقاد کیا گیا جس میں انڈیا کے وزیر اعظم نے شرکت کی۔
اس تقریب کو مختلف مقامات پر بڑی بڑی سکرینوں پر دکھایا گیا جبکہ انڈیا کے تقریبا تمام ٹی وی نیوز چینلرز دن بھر وہاں سے تقریبا لائیو براڈکاسٹ کرتے رہے۔
مزید پڑھیں
-
انڈیا: کورونا کے مریض 20 لاکھ سے زائد
Node ID: 497316
-
’ماسک نان‘: ’اس کا ماحاصل یہ ہے کہ اپنا ماسک کھاؤ‘
Node ID: 497576
-
انڈیا: طوفانی بارشوں میں درجنوں بہہ گئے، 29 ہلاک
Node ID: 497671
اس سے قبل رام اور ایودھیا کے متعلق نیپال کے وزیر اعظم کے بیان پر تنازع کھڑا ہو گیا تھا جب انھوں نے کہا کہ رام اس ایودھیا کے نہیں تھے بلکہ نیپال میں بہار سے ملحق بیرگنج کے پاس ایودھیا نامی ایک چھوٹی سی جگہ سے تھے۔
انڈیا کی جانب سے سادھوؤں نے اور نیپال میں بھی بہت سے لوگوں نے وزیر اعظم کے پی شرما اولی کے بیان کو مسترد کر دیا تھا جس کے جواب میں نیپال کی وزرات خارجہ نے وضاحت کی تھی کہ ان کا بیان کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا۔ بلکہ ایک نیپالی شاعر کے 207 ویں یوم پیدائش پر انڈیا اور نیپال کے درمیان مشترکہ تحقیق کے موضوع کے طور پر یہ بیان دیا گیا تھا۔
اس کے بعد گذشتہ دنوں انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر پرساد نے جب اپنے ایک بیان میں بدھ مذہب کے بانی مہاتما بدھ کو انڈیا کا کہا تو نیپال کی جانب سے اس کے متعلق سخت رد عمل سامنے آيا۔
در اصل سنیچر کے روز کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹریز (سی آئی آئی) کے ایک پروگرام میں انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ 'اگر مجھ سے پوچھا جائے کون سے دو عظیم ہندوستانی ہیں جن کو آپ کو یاد رکھ سکتے ہیں۔ تو میں کہوں گا کہ ایک گوتم بدھ اور دوسرے مہاتما گاندھی۔'
Some 2270 years ago, Indian Emperor Ashok erected a pillar at Lumbini in Nepal to mark the birthplace of Buddha. That monument stands taller than any self-aggrandizing claim to say that Budha was an “Indian”!
Period!!
— Madhu Raman Acharya (@MadhuRamanACH) August 9, 2020
بس اس کے بعد کیا تھا انڈیا اور نیپال کے درمیان جاری تنازعات کے سلسلے میں نیپال کو موقع مل گیا اور وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تاریخی حقیقت ہے اور آثار قدیمہ کی ناقابل تردید شواہد ہیں کہ گوتم بدھ کی پیدائش نیپال کے لمبینی میں ہوئی تھی۔
مہاتما بدھ کی جائے پیدائش لمبینی بدھ مذہب کے ماننے والوں کی اصل جگہ ہے جو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ میں بھی شامل ہے۔
نیپال کے سابق خارجہ سیکریٹری اور اقوام متحدہ میں نیپال کے مستقل رکن مدھو رمن آچاریہ نے ٹویٹ کیا کہ 'راجہ اشوک نے نیپال کے لمبینی میں مہاتما بدھ کی جائے پیدائش کے نشان کے لیے ایک ستوں قائم کیا تھا جو کہ کسی بھی دعوی سے کہیں زیادہ عظمت کے ساتھ کھڑا ہے۔‘
نیپال کی جانب سے متواتر بہت سے رد عمل سامنے آئے تو انڈیا کی وزارت خارجہ کو وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا جس میں اس نے کہا کہ ’وزیر خارجہ مشترکہ ورثے کا ذکر کررہے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گوتم بدھ کی پیدائش لمبینی میں ہوئی تھی، جو نیپال میں ہے۔‘
#TamilsAreNotHindus trending today thanks to RSS & Modi's 'One Nation' obsession!
— Ashok Swain (@ashoswai) August 9, 2020
خیال رہے کہ انڈیا اور نیپال کے درمیان سرحد کے متعلق اور نیپال کی جانب سے جاری نئے نقشے کے معاملے کشیدگی جاری ہے۔
بہر حال بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بہت ہی قدیم چيزیں ہیں جب یہ سرحدیں نہیں ہوتی تھیں اس لیے ان باتوں کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
لیکن ایودھیا میں زمین کی پوجا کے بعد سے جنوبی ہند کے لوگوں کے متعلق سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ زور شور سے کئی دنوں تک گردش کر رہا ہے کہ 'تملز آر ناٹ ہندوز'، اس کے جواب میں 'تملز آر ہندوز' نامی ٹرینڈ بھی آیا۔
'تملز آر ناٹ ہندوز' کے تحت جن لوگوں نے ٹویٹ کیا انھوں نے رام کے ساتھ راون کی تصویر لگائی اور بہت سے لوگوں نے کہا کہ ان کے لیے راون زیادہ ڈیشنگ ہے۔
بہت سے لوگوں نے کہا کہ مودی نے انڈیا کو یہاں تک تقسیم کر دیا کہ اب تمل کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہندو نہیں ہیں۔ بہت سے لوگوں نے تمل اور جنوبی ہند کے دیوتاؤں کی تصاویر شیئر کی اور کہا کہ ان کے ہیروز یہ ہیں۔
ایک صارف نے لکھا: رام آپ کی شناخت ہیں، راون ہماری شناخت ہیں۔ گنیش آپ کی شناخت ہیں موروگن ہماری شناخت ہیں۔ آپ ویجیٹیرین ہیں ہم نان ویجیٹیرین ہیں۔ آپ ہم سے نہیں۔'
جبکہ ’تملز آر ہندوز‘ کے تحت کہا گیا کہ جو لوگ مذکورہ ٹرینڈ چلا رہے ہیں وہ ملک کو تقسیم کر رہے ہیں۔
بہت سے صارفین نے جنوبی ہند کے مندروں کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے ہندو ہونے کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
Ram is your identity
Ravanaa is our identityGanesh is your identity
Murugan is our identityYou are veg
We are non-vegYou are NOT us!!!
— ஆர்த்திக் தமிழன்ᴺᵀᴷ (@tamilanntk) August 9, 2020
دریں اثنا انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں آسام یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے خلاف سلچر میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ اس میں یہ شکایت کی گئی ہے کہ انھوں نے بھگوان رام کے خلاف قابل اعتراض تنقید کی ہے اور یہ کہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
در اصل انگریزی کے پروفیسر انیگدھ سین نے پانچ اگست کو بھگوان رام کے اپنی اہلیہ سیتا کو تیاگ (چھوڑ) دینے کے متعلق ایک پوسٹ لکھی تھی۔
#Vel_Pooja#வெற்றிவேல்_வீரவேல்
No need to prove #TamilsAreHindus but anybody asked this one image is enough for #TamilsAreHindus pic.twitter.com/1dHL2dBHMH