Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چمن بارڈر کو پانچ ماہ بعد مکمل طور پر کھول دیا گیا

پاکستان نے افغانستان کے ساتھ چمن کے مقام پر اپنی سرحدی راہداری پانچ ماہ بعد مکمل طور پر بحال کر دی ہے۔ سرحد پر اب ہفتے کے ساتوں دن دو طرفہ پیدل آمدروفت اور تجارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔
طویل عرصے بعد سرحد کھلنے پر مقامی تاجروں اور مزدوروں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔
پاک افغان چمن سرحد رواں سال دو مارچ کو کورونا کے باعث مکمل طور پر بند کردی گئی تھی۔ 
اس کے بعد جون میں سرحد کو جزوی طور پر بحال کیا گیا اور ہفتے میں صرف ایک دن پیدل آمدروفت کی اجازت دی گئی مگر اس کے لیے بھی پہلی بار پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد کی گئی جس پر چمن کے مقامی تاجروں اور سرحد پر چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے مزدوروں نے احتجاج کیا۔
 احتجاج کا یہ سلسلہ دو ماہ سے زائد عرصہ جاری رہا اس دوران افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارت اور آمدروفت معطل رہی۔
30 جولائی کو سرحد کی بحالی کے لیے احتجاج کرنے والے مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی جس میں پانچ افراد ہلاک اور پندرہ افراد زخمی ہوئے۔
احتجاج ختم کرانے اور سرحد پر آمدروفت کو قانونی بنانے کے لیے بلوچستان حکومت نے دو کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔
صوبائی وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو کی سربراہی میں کمیٹی نے مظاہرین سے مذاکرات بھی کیے جس کے بعد صوبائی حکومت کے نمائندوں نے وفاقی حکومت اور اعلیٰ فوجی حکام کے ساتھ سرحد کی بحالی کے لیے بات چیت کی۔

30 جولائی کو سرحد کی بحالی کے لیے احتجاج کرنے والے مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

محکمہ داخلہ بلوچستان کے ایک عہدے دار نے اردو نیوز کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے چمن سرحد کو دو مارچ سے پہلے والی پوزیشن پر بحال کر دیا ہے۔
’اب دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں کے مکینوں کو پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر پاکستانی شناختی کارڈ اور افغانی تذکرہ پرآمدروفت کی اجازت ہوگی۔‘ محکمہ داخلہ کے عہدیدار نے بتایا کہ وفاقی وزارت داخلہ اور وزارت دفاع سرحد پر آمدروفت کو قانونی شکل دینے کے منصوبے پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں اورآئندہ چند مہینوں میں آمدروفت کے لیے قانونی طریقہ کار طے کر لیا جائے گا۔
واضح رہے کہ چمن افغانستان اور پاکستان کے 26 سو کلومیٹر طویل سرحد پر واقع دو بڑے سرحدی گزرگاہوں میں سے ایک ہے اوراس پر قیام پاکستان سے لیکر اب تک بغیر پاسپورٹ اور ویزے کی آمدروفت ہوتی آرہی ہے۔
سرکاری اندازے کے مطابق دو مارچ سے قبل چمن سرحد سے روزانہ تقریباً پچیس سے تیس ہزار پاکستانی اور افغان باشندے پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر سرحد عبور کرتے تھے۔ اسی طرح پاکستانی سرحدی علاقوں چمن اور قلعہ عبداللہ کے تقریباً دس سے بارہ ہزار تاجر افغانستان کے سرحدی شہر سپن بولدک میں کاروبار کے لیے صبح جاتے اور شام کو آتے تھے۔
اس کے لیے کسی پاسپورٹ، ویزے یا راہداری کی شرط نہیں تھی ۔صرف شناختی کارڈ پر چمن یا قلعہ عبداللہ کا پتہ درج ہونا ضروری تھا۔

سرحد بند ہونے کی وجہ سے دونوں طرف مزدور بھی متاثر ہوئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

چمن کے تاجر رہنما اسلم اچکزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ 12 سے 15 ہزار مزدوروں کا روزگار بھی اسی سرحد سے وابستہ تھا جو چھوٹے پیمانے پر تجارتی سامان بغیر کسی ٹیکس کے ہتھ ریڑھیوں کے ذریعے پاکستان لاتے تھے۔
سرحد بند ہونے، پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد ہونے سے یہ تمام تاجر اور مزدور بے روزگار ہوگئے تھے اور اس کے اثرات چمن ہی نہیں بلکہ کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان کی معیشت پر پڑے۔
انہوں نے کہا کہ سرحد کی بحالی سے تاجر اور مزدور طبقہ انتہائی خوش ہے اور تقریباً ساڑھے پانچ ماہ بعد پاکستانی تاجر اپنی تجارت اور کاروبار بحال کرنے کے لیے افغانستان گئے ہیں۔
چمن کے رہائشی حیات اللہ اچکزئی کی افغان سرحدی شہر سپین بولدک میں گاڑیوں کے پرزہ جات کی دکان ہے وہ گزشتہ دس سالوں سے اس کاروبار سے وابستہ ہے مگر پانچ ماہ سے سرحد بند ہونے کی وجہ سے وہ گھر پر بے روزگار بیٹھے تھے۔
انہوں نے سرحد کی بحالی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نا امید ہوگئے تھے کہ اب دوبارہ کبھی سرحد پار کاروبار نہیں کرسکیں گے۔ روزگار کا کوئی دوسراوسیلہ بھی نہیں تھا اس لیے ذہنی اذیت کا شکار تھے۔ اب ہم دوبارہ اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کماسکیں گے۔‘

تاجروں نے بھی سرحد کھلنے پر خوشی کا اظہار کیا ہے (فوٹو: اےا یف پی)

چیمبر آف کامرس کوئٹہ کے نائب صدر بدر الدین کاکڑ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چمن سرحد بند ہونے سے پاکستان اور افغانستان کی تجارت بری طرح متاثر ہوئی۔ مہینوں تک مال بردار گاڑیاں پھنسنے کی وجہ سے کروڑوں روپے کا نقصان اٹھاناپڑا۔ محصولات میں کمی کی وجہ سے حکومت کو بھی نقصان ہوا۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ بڑے تاجروں نے چمن کے بجائے طورخم کے راستے تجارت شروع کر دی۔
بدر الدین کاکڑ نے کہا کہ پاک افغان سرحد کی بحالی خوش آئند ہے، طورخم کی طرح چمن سرحد کو بھی 24 گھنٹے کھولا جائے تاکہ تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو ایسے اقدامات اٹھانے چاہیے تاکہ مستقبل میں ناخوشگوار واقعات نہ ہوں اور سرحد پر تجارتی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں کیونکہ چمن کے راستے صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ بھی ہماری تجارت ہوتی ہے۔

شیئر: