Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک چٹکی سندور کی قیمت

عدالت نے پرشانت بھوشن کو سزا سنادی اور کہا کہ وہ ایک روپیہ بطور جرمانہ ادا کریں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اگر آپ کو ہندی فلموں کا شوق ہے تو کیا چانس ہے کہ یہ ڈائیلاگ آپ نے نہ سنا ہو کہ ’ایک چٹکی سندور کی قیمت تم کیا جانو رمیش بابو؟‘
دیپیکا پاڈوکون اپنی پہلی فلم ’اوم شانتی اوم‘ میں اپنے بے پناہ حسن کے جلوے بکھیر رہی تھیں، انہوں نے منہ کھولا اور یہ ڈائیلاگ ہندی فلم انڈسٹری کی تاریخ کا حصہ بن گیا۔
کچھ اسی انداز میں جیسے امیتابھ بچن ناقابل فراموش فلم ’دیوار‘ میں کہتے ہیں کہ ’داور صاحب، میں آج بھی پھینکے ہوئے پیسے نہیں اٹھاتا۔‘

 

بس یہ ڈائیلاگ یاد رکھیے گا۔ لیکن پہلے انڈیا کی سپریم کورٹ چلتے ہیں جہاں توہین عدالت کا ایک غیر معمولی مقدمہ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ سینیئر وکیل پرشانت بھوشن پر عدالت عظمی کی عظمت کو زک پہنچانے کا الزام تھا۔ وہ ادھر اُدھر کچھ کہہ دیتے تو شاید عدالت نظرانداز کر دیتی لیکن اگر آپ سوشل میڈیا پر کہیں گے کہ جج انصاف کی راہ سے بھٹک گئے ہیں تو پھر خمیازہ بھگتنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔
فیڈ بیک اچھی چیز ہے لیکن اب آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ فیڈ بیک نہ دینے کے بھی اپنے فائدے ہوتے ہیں۔
ذرا سوچیے کہ ججوں کے پاس اور کام ہی کیا ہوتا ہے اور اگر آپ کہیں کہ وہ انصاف بھی نہیں کر رہے تو یہ سوال اٹھنا تو بنتا ہی ہے کہ پھر وہ پورا دن کرتے کیا ہیں۔
تین بہت سینیئر ججوں کی ایک بینچ نے پرشانت بھوشن سے کہا کہ وہ معافی مانگ لیں تو بات ختم کی جاسکتی ہے لیکن پرشانت بھوشن کہاں کسی کی بات سنتے ہیں۔ ان کے سر پر یہ بھوت سوار ہے کہ سب کو انصاف ملنا چاہیے، اور عدالت عظمی کا وقار اتنا بلند ہونا چاہیے کہ کوئی اس پر انگلی نہ اٹھاسکے، نہ وہ حکومت کے دباؤ میں آئے اور نہ کارپوریٹ دنیا کے۔
بھائی دنیا میں ایک ماں کے علاوہ ایسی کون سی چیز ہے جو سب کے پاس ہوتی ہے۔ تو کیوں ضروری ہے کہ سب کو انصاف ملے، جسے مل گیا وہ خوش رہے جسے نہیں ملا وہ صبر کرے۔ صبر کا بھی اپنا الگ ہی مزا ہے اور اس کا پھل بھی کبھی نہ کبھی ملتا ضرور ہے۔ اس زندگی میں نہیں تو پھر آگے کبھی دیکھیں گے۔

عدالت نے کہا کہ معافی مانگنا کوئی بری بات نہیں ہوتی، پرشانت بھوشن نے جواب دیا کہ اگر غلطی کی ہی نہ ہو تو؟ (فوٹو: اے ایف پی)

بہرحال، عدالت کی رحم دلی کو پرشانت بھوشن نے کمزوری سمجھا اور کہا کہ معافی مانگنے کا سین سکرپٹ میں شامل نہیں ہے۔ اور امیتابھ بچن کی طرح بس اپنی بات پر اڑے رہے، یا تو کیس ختم کرو یا جو سزا دینی ہے دو، معافی نہیں مانگوں گا۔
عدالت نے کہا کہ معافی مانگنا کوئی بری بات نہیں ہوتی، پرشانت بھوشن نے جواب دیا کہ اگر غلطی کی ہی نہ ہو تو؟
تو جناب آخرکار عدالت نے انہیں سزا سنا دی اور کہا کہ وہ ایک روپیہ بطور جرمانہ ادا کریں اور اگر نہیں کرتے تو تین مہینے کے لیے جیل جانا ہوگا اور تین سال تک وکالت نہیں کر سکیں گے۔
قانونی باریکیاں تو ہمیں سمجھ نہیں آتیں لیکن اس ترازو کا بیلنس بالکل بگڑا ہوا ہے۔ مانا کہ ایک روپے میں ایک چٹکی سندور مل جاتا ہے، اور مانگ میں بھرا ہوا یہ لال رنگ عورتوں کے سہاگ کی نشانی ہوتا ہے، اور اس کی قیمت رمیش بابو کو پتا نہیں ہے لیکن فلمی ڈائلاگ اپنی جگہ، ایک روپیہ ایک روپیہ ہی ہوتا ہے، اس میں آج کل سندور کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ یا کم سے کم اب تک نہیں ملتا تھا۔
اب ایک طرف ایک روپیہ ہے اور دوسری طرف تین مہینے کی قید اور تین سال تک وکالت کرنے پر پابندی، ایک ہی جھٹکے میں عدالت نے روپیے کی قدر کو کہاں پہنچا دیا ہے۔

سشانت سنگھ راجپوت کی خود کشی کا معاملہ بھی ٹی وی چینلوں پر زیر بحث ہے (فوٹو: اے ایف پی) 

بات اپنی سجھ سے باہر ہے۔ پرشانت بھوشن جیسے وکیل چاہیں تو دن میں پانچ دس لاکھ روپے یوں پلک جھپکتے کما سکتے ہیں، ان کا میٹر منٹوں کے حساب سے چلتا ہے۔ اور ایک روپیہ جمع کرانے کے لیے دو ہفتے کی مہلت؟ جرمانہ ادا کرنے کے لیے کیا وہ چندا کریں گے یا بینک سے لون لیں گے؟
جرم بہت سنگین تھا۔ الزام تھا کہ اپنی ٹوئیٹس سے مسٹر بھوشن نے عدلیہ کی جڑیں کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر جرم سنگین نہیں تھا تو عدالت کو کہنا چاہیے تھا کہ آئندہ ذرا خیال رکھیں، بزرگ بلا وجہ نہیں کہتے تھے کہ بولنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے، اور اگر سنگین تھا تو بخشنا نہیں چاہیے تھا۔
 ب تو کچھ سر پھرے سوچ رہے ہوں گے کہ عدالت کی رجسٹری میں دس روپے جمع کرا دیتے ہیں، فیصلوں پر ٹوئیٹ تو ہم کرتے رہتے ہیں، کٹواتے رہیں گے۔
پرشانت بھوشن نے جرمانہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اب بات یہاں ختم ہو جائے۔ لیکن ایک شخص اور ہے جس کی زندگی عذاب بنی ہوئی ہے۔ اور وہ ہیں ریا چکرورتی، فلم سٹار سشانت سنگھ راجپوت کی سابقہ گرل فرینڈ۔
سشانت سنگھ نے خود اپنی جان لی یا انہیں قتل کیا گیا، ٹی وی چینلوں کی مہربانی سے انڈیا میں 24 گھنٹے بس اسی پر بحث ہو رہی ہے اور چینل ریا چکرورتی کو سولی پر لٹکانے کی تیاری کر رہے ہیں، وہ بھی چوراہے پر، سر عام۔ اگر وہ بے قصور ثابت ہوئیں اور سشانت کی افسوس ناک موت میں ان کا کوئی رول نہیں نکلا تو؟ تو کیا؟ سب کو انصاف ملنا کیوں ضروری ہے؟

ٹی وی چینلز اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ سشانت سنگھ نے خود اپنی جان لی یا انہیں قتل کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

ریا سشانت سنگھ کی لو ان پارٹنر تھیں یعنی شادی کیے بغیر ہی ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کی موت سے کچھ دن پہلے وہ ان کے گھر سے چلی گئی تھیں۔ کیوں، اس بحث میں پڑنے سے کوئی فائدہ نہیں لیکن اب ان کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ نہ کسی ملزم کے ساتھ ہونا چاہیے اور نہ مجرم کے۔ یہ سوال اکثر میرے ذہن میں آتا ہے کہ اگر سشانت سنگھ نے ان کی مانگ میں دو چٹکی سندور ڈال دیا ہوتا تو کیا تب بھی ان کے ساتھ وہ سب ہوتا جو اب ہو رہا ہے؟
سشانت کی فیملی کے وکیل کو میں نے ٹی وی پر کہتے سنا کہ ریا ان کے پیسے سے عیش کی زندگی گزار رہی تھیں۔ بھائی جب دو لوگ ساتھ رہتے ہیں اور ان کے پاس دولت ہوتی ہے تو وہ عیش بھی ساتھ ہی کرتے ہیں، اپنا اپنا برگر خود نہیں خریدتے۔
ایک چٹکی سندور کی قیمت سمجھنا آسان نہیں ہے۔

شیئر: