Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'حیات بلوچ پر فائرنگ انفرادی فعل ہے'

کمیٹی کا کہنا تھا کہ یہ کریمینل نہیں انسانی حقوق کی پامالی کا واقعہ ہے (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور (ایف سی) میجر جنرل سرفراز علی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے علاقے تربت میں ایف سی اہلکار کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے نوجوان حیات بلوچ کے معاملے کو ادارے سے نہ جوڑا جائے یہ ایک انفرادی فعل ہے۔ 
جمعرات کو سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی زیر صدارت سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا جس میں آئی جی ایف سی بلوچستان اور آئی جی پولیس بلوچستان کو حیات بلوچ کے قتل کے معاملے پر بریفنگ کے لیے طلب کیا گیا تھا۔  
سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق میں حیات بلوچ کے قتل کے معاملے پر آئی جی ایف سی نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 'یہ انسانی حقوق کا نہیں بلکہ ایک کریمینل معاملہ ہے، ایف سی اہلکار نے جذبات میں آکر حیات بلوچ پر فائرنگ کی اس کو ادارے کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔'
واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ '13 اگست کو ایف سی کی دو گاڑیاں ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ کی جانب جارہی تھیں جس میں میں ایک نوجوان کی والدہ کا انتقال ہو چکا تھا اور اسے دوسرے کیمپ لے جایا جا رہا تھا تاکہ وہ جنازے میں شرکت کے لیے ایئرپورٹ جا سکیں۔' 
انہوں نے کہا کہ '11 بج کر 50 منٹ پر کھجوروں کے باغ کے پاس سے قافلہ گزر رہا تھا کہ اس دوران سڑک پر کھڑی موٹر سائیکل میں نصب بم کا دھماکہ ہوا۔ دھاکے کے نتیجے میں ایف سی کے تین اہلکار زخمی ہوئے۔ ایسی صورت حال میں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ پورے علاقے کو گھیرے میں لیا جائے اور وہاں موجود افراد سے پوچھ گچھ کی جائے۔' 
آئی جی ایف سی میجر جنرل سرفراز نے بتایا کہ 'وہیں پر حیات بلوچ اپنے والد کے ساتھ کھجور کے باغ میں کام کر رہا تھا۔ ہم نے حیات بلوچ کو بلا کر سائیڈ پر بٹھایا۔ اس دوران شادی اللہ نامی ایف سی اہلکار نے جذبات میں آکر خودکار گن کے ساتھ حیات بلوچ پر فائرنگ کر دی۔' 

آئی جی ایف سی نے کہا کہ اس واقعے کو ادارے کے ساتھ نہ جوڑا جائے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

آئی جی ایف سی کے مطابق ایف ایس اہلکار اتنے غصے میں تھا کہ جب اس نے فائرنگ کی تو ہمارے جے سی او بھاگتے ہوئے ان کے پاس گئے اور پوچھا کہ یہ کیا کیا تم نے تو شادی اللہ نے ان پر بھی بندوق تان لی اور جذباتی ہو کر کہا کہ جب ہمارے اوپر حملے ہوتے ہیں تو آپ لوگ بولتے نہیں۔'
آئی جی ایف سی نے بتایا کہ یہ ایک انفرادی فعل تھا اسے انسانی حقوق کا واقعہ بنا کر ادارے کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔
چیئرمین کمیٹی مصطفیٰ نواز کھوکھر نے آئی جی ایف سی کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ 'یہ کریمینل نہیں انسانی حقوق کی پامالی کا واقعہ ہے اور آئین پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے پورا ایک چیپٹر موجود ہے۔' 
آئی جی ایف سی نے کمیٹی کو بتایا کہ انہوں نے خود ایف سی اہلکار کو پولیس کے حوالے کیا۔ 'جب ایس ایس پی نجیب اللہ واقعے کی تحقیقات کے سلسلے میں کیمپ آئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو ایف سی اہلکار کے بارے معلوم ہے تو ان کو نام میں نے خود بتایا اور اسے پولیس کے حوالے کیا۔ ان سے کہا کہ میری طرف سے شادی اللہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے جس پر انہوں نے مجھ سے وقت مانگا اور پھر کہا کہ آپ کی طرف سے ایف آئی آر درج کرنے سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ 
آئی جی ایف سی کے مطابق ملزم شادی اللہ 10 سال پہلے ایف سی میں بھرتی ہوئے اور چار سال پہلے ایک دھماکے میں زخمی بھی ہوئے تھے۔ وہ ایک بہادر نوجوان ہے لیکن اس واقعے کو کسی صورت بھی جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ 
انہوں نے کہا کہ 'دو گھنٹوں کے اندر میں نے اس واقعے پر کارروائی کی اور اس وقت تک کوئی بھی ٹویٹ اس حوالے سے سامنے نہیں آئی تھی، ہم نے کسی دباؤ میں نہیں کیا بلکہ اس قسم کے فعل کو کبھی نہیں برداشت کیا جاسکتا۔' 
آئی جی ایف سی نے کمیٹی سے درخواست کی کہ اس کیس کے حوالے سے مزید بریفنگ ان کیمرا رکھ لیں جس پر کمیٹی کے چیئرمین نے اجلاس کی کارروائی ان کیمرا کر دی گئی۔

شیئر: